پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو بطور خاص یہ بات سمجھنا ہوگی کہ سندھ میں مذہبی تقدسات کے نام پر فتویٰ فتویٰ کھیلتے مذہبیوں کے سامنے ڈاکٹر عرفانہ ملاح نے گھٹنے نہیں ٹیکے بلکہ یہ صدیوں اور ہزاریوں سے صوفی مزاج کے حامل سندھ کے گھٹنے ٹکوائے گیے ہیں۔
ڈاکٹر عرفانہ ملاح کے معاملے میں پیپلز پارٹی اور اس کی صوبائی حکومت جس طرح لاتعلق رہی اور جیسے ایک مذہبی غنڈے راشد سومرو کے ایما پر ڈاکٹر عرفانہ ملاح کے خلاف صوبے میں منظم مہم چلائی گی وہ شرمناک حد تک قابل مذمت ہے۔ اپنی زندگی اور خاندان کے تحفظ کے لیے ڈاکٹر صاحبہ کو بریلوی مکتب فکر کی مذہبی رجیم کا سہارہ لینا پڑایہ فقط اس وجہ سے ہوا کہ سندھ کے ترقی پسند حلقوں نے اپنا حقیقی کردار ادا نہیں کیا نہ ہی صوبائی حکومت ڈاکٹر صاحبہ کو تحفظ فراہم کر پائی۔
بہت افسوس کے ساتھ کہنا لکھنا پڑ رہا ہے کہ سچل ، سامی ، اور شاہ کے سندھی سماج میں جو صدیوں سے کُل کی خیر چُل کی خیر کے نظریہ کا امین رہا آج مٹھی بھر مذہبی جنونی قابض دیکھائی دے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو ہی نہیں بلکہ ریاستی اداروں کے بنوائے سیاسی اتحاد جی ڈی اے میں تشریف فرما قوم پرستوں کو بھی ہوش کے ناخن لینا ہوں گے۔
سندھ کی صوفیانہ اساس کے ازلی دشمنوں کی سازشوں کو نہ صرف سمجھنا ہوگا بلکہ سندھ کو وزیرستان اور سوات بنانے کے لیے سرگرم عمل عناصر کے خلاف حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔ سچل ، سامی اور شاہ کے سندھ میں مذہبی جنونیوں کی اچھل کود اور فتنہ سامانی کا راستہ سچل ، سامی اور شاہ کی تعلیمات کے ذریعہ ہی روکا جا سکتا ہے۔
سندھ کی صوفیانہ اساس کو بچانے میں تاخیر کا خمیازہ سب کو بھگتنا پڑے گا۔ مناسب ترین بات یہ ہے کہ چُپ کاروزہ اور خوف کی زنجیر توڑ دیجے میدان عمل میں نکلیئے اور سرمدی نغمہ الاپیئے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn