Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

تجربوں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

آقائے سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم یاد آرہے ہیں۔ ارشاد ہوا
”کلام کرو تاکہ پہچانے جاو“۔
یہ چار اور کی آوازیں بیانات اور خطابات‘ ان سب پر اس سے زیادہ کچھ عرض کرنے کو جی نہیں کرتا کہ سیاسی اختلافات ذاتی نفرتوں میں تبدیل ہوچکے۔اچھا ویسے سیاسی عمل ہمارے یہاں ہے بھی کہ محض دلپشوری کرنے کے قصے ہیں۔ زندگی کی سچائیاں قدرے مختلف ہیں، سامت نے کہا تھا ”زندگی کی سب سے بڑی سچائی زندگی ہی ہے اور اس کا حسن اخلاق“لیکن جانے دیجئے‘ ہزاروں برس قبل کے عہد فراعین مصر کے اس نوجوان دانش مند کو اسے چند مہینے یا سال ہمارے عہد اور ہمارے سماج میں بیتانے پڑتے تو اپنے کلام سے رجوع کرلیتا۔

ہمارے یہاں کتنے لوگ ہیں جو زندگی کی سچائی زندگی کو اور حُسنِ زندگی اخلاق کو سمجھتے ہیں؟اس سوال میں بھی کیا رکھا ہے۔
گزشتہ سے پیوستہ کالم پر کچھ قارئین بہت ناراض ہوئے چند نے حوصلہ دیا۔ پڑھنے والوں کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ لکھنے والے اسی سماج میں سانس لیتے جیتے اور موسم اوڑھتے ہیں۔ پسند و نا پسند سے دامن بچانے کا دعویٰ سب سے بڑا جھوٹ ہے اسلئے اپنی پسند وناپسند کبھی نہیں چھپائی، البتہ جو لوگ یا سیاسی جماعتیں پسند ہیں ان کی منافقت بھری حمایت اور غلطیوں پر مٹی ڈالنے کی بجائے ان کے زمانہ ہائے اقتدار میں جو عرض کرسکتا تھا کسی خوف کے بغیر عرض کیا۔

پیپلز پارٹی یا اے این پی فرشتوں کی جماعتیں نہیں ان کے قائدین اور کارکنان وہمدرد اس سماج کے لوگ ہیں میرے اور آپ جیسے۔
پچھلے دور میں جب جناب نواز شریف کےخلاف بھارت کارڈ اور ختم نبوت کے مسئلہ کو لےکر سیاست چمکانے والے دندناتے پھر رہے تھے تو ذاتی ناپسندیدگی کی سطح سے اوپر اُٹھ کر عرض کیا تھا کہ یہ مثبت رویہ نہیں، سیاسی اختلافات کو عدم برداشت اور مذہبی جذبات سے محفوظ رکھیں ورنہ کل آپ سر پکڑ کر روتے دکھائی دیں گے۔

بدقسمتی یا خوش قسمتی سے ہماری نسل نے جو پچھلی صدی کی چھٹی اور ساتویں دہائی میں پروان چڑھی اور آٹھویں دہائی میں جنرل ضیاءالحق کے عہدستم کےخلاف پرعزم جدوجہد کی بہت پہلے یہ سمجھ لیا تھا کہ ریاستی نظام اور سیاسی عمل دونوں کا مذاہب وعقیدوں سے کوئی تعلق نہیں۔ریاست اور سیاسی عمل کا فرض لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ‘ قانون کی بالا دستی‘ دستوری اداروں کے سامنے سر تسلیم خم کرنا اور سماجی مساوات کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔سات دہائیوں سے اوپر کے دو برس کا سفر ہے، اس ریاست کا جو اگست 1947ءکے بٹوارے کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی۔ ان گزرے بہتر برسوں کے دوران اس ملک میں تجربات ہی تو ہوئے۔

یہ بھی پڑھئے:  کیا پیپلزپارٹی ختم ہوچکی؟

ہم نے چار مارشل لاءدیکھے بھگتے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے آدھا ملک الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔کیا کبھی ہم نے ضرورت محسوس کی کہ ایک ایسا قومی کمیشن بنائیں جو ان ماہ وسال اور حکمرانوں کے حوالے سے رپورٹ مرتب کرے جو سقوط مشرقی پاکستان کی وجہ بنے؟۔ المیہ یہ ہے کہ نہ صرف ہم نے ایسا کوئی قومی کمیشن ہی بنایا بلکہ سقوط مشرقی پاکستان سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔چار صوبوں اور پانچ قوموں (ان قوموں کی صدیوں نہیں ہزاریوں کی تاریخ ہے) والے اس ملک میں لے دے کر ایک 1973ءکا دستور ہی ہے۔ اس دستور کا جو حشر ہوا اور جس طرح دو فوجی آمروں نے اس سے سلوک کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔

بعض سیاسی کمزوریوں اور کچھ پروپیگنڈے کے باوجود ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ 1973ءکے دستور کی خالق پیپلز پارٹی نے 2008ءسے 2013ءکے درمیان آئینی ترامیم کے ذریعے اسے حقیقی حالت میں بحال کرنے کےلئے بھرپور اقدامات کئے‘ مزید اقدامات ہونے چاہئیں تھے۔صوبوں اور وفاق بلکہ یوں کہیں کہ قومیتوں اور اسلام آباد کے درمیان جو بداعتمادی موجود ہے اسے دور کرنے کےساتھ اداروں میں توازن کی ازحد ضرورت تھی۔

پیپلز پارٹی کی بد قسمتی کہیں کہ اس نے بقول اس وقت کے معروضی حالات میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کی مگر جنرل کیانی نے دستوری کردار پر توجہ دینے کی بجائے جسٹس افتخار چودھری اور نواز شریف کےساتھ مل کر اس حکومت کےخلاف قدم قدم پر مشکلات پیدا کیں۔یہاں تک کہ 2013ءکے انتخابی نتائج منصوبہ بندی کے تحت چرائے گئے، 2013ءمیں عمران خان نے انتخابی عمل سے کچھ قبل کرن تھاپر کو متنازعہ انٹرویو(مقامی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک یہ متنازعہ ہی تھا) نہ دیا ہوتا تو عین ممکن ہے کہ نتائج چرانے کی منصوبہ بندی کی ضرورت نہ پڑتی کیونکہ اس وقت تقریباً سارے ادارے یہ رپورٹ دے رہے تھے کہ انتخابی عمل کے نتیجے میں ایسی پارلیمنٹ معرض وجود میں آئے گی جس میں حکومت سازی کےلئے تین سے زیادہ سیاسی گروپوں کو مخلوط حکومت کا ڈول ڈالنا پڑے گا۔

یہ بھی پڑھئے:  تین جماعتوں کی تاریخی کہانی (قسط:1)

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے یہاں سارے مسائل اور معاملات کا ذمہ دار بہت آسانی کےساتھ سیاستدانوں اور سمجھوتہ برانڈ سیاسی حکومتوں کو ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ ملک کے طاقتور اداروں کے کردار خصوصاً انتخابی نتائج چرائے جانے کی منصوبہ بندی کرنے والوں یا زمین سے جڑی حب الوطنی کی بجائے مخصوص قسم کی حب الوطنی کو پروان چڑھا کر یہ تاثر دینے والوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا کہ
” ساری رونقیں ان کے دم سے ہیں“۔

اب بھی پچھلی صدی کی آٹھویں اور نویں دہائی کے سیاسی سودے بیچے جا رہے ہیں۔ کسی بھی شعبہ میں کار کردگی کے حوالے سے سوال پوچھ کر دیکھ لیجئے جواب پچھلے بہتر سال سے شروع ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ کے پاس مسائل کا حل اور مربوط حکمت عملی کی اہلیت یا پرعزم ٹیم ہی نہیں تھی تو کھوکھلے دعوے‘ نعرے اور سستے الزامات پر طوفان اُٹھانے(ویسے سچ تو یہ ہے کہ طوفان اٹھوانے کہا لکھا جانا چاہئے)کی ضرورت کیا تھی۔ ہم اگر پچھلے ایک سال کی حکومتی کارکردگی کا تجزیہ کریں تو سادہ سا جواب ہے وہ یہ کہ”نمازیں بخشوانے گئے تھے روزے بھی گلے پڑ گئے“ یہ سب کب تک چلے گا اور کیا مالکان کو یہ احساس ہے کہ حالات کا جبر بڑھتا جا رہا ہے‘ زندگی اجیرن ہوتی جا رہی ہے؟ اس سوال پر مجھ اور آپ سے زیادہ مالکان کو غور کرنا چاہئے۔ بہت ضروری ہے کہ لوگوں کے جذبات سے کھیلنے اور ماضی کو کوستے رہنے کی بجائے اپنی پالیسیوں کے نتائج پر بات کی جائے۔

27 ستمبر 2019ء
روزنامہ مشرق پشاور

حالیہ بلاگ پوسٹس