اگر آپ دانشور‘ سینئر تجزیہ نگار اور دھانسو قسم کے صحافی بننے کے خواہش مند ہیں تو خبردار آپ نے کسی کتاب کو چھوکر بھی دیکھا۔ اخبارات کی صرف وہ سرخیاں پڑھنی ہیں جس سے آپ کی دانش کو رزق ملے۔
حب البرتنی کا چاٹ مصالحہ صرف دوپہر کے کھانے میں استعمال کریں۔ نہار منہ دو چمچ نسیم حجازی لیں اور رات سونے سے قبل دو منٹ کیلئے لال ٹوپی والے کی تصویر کو غور سے دیکھیں۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ آپ دنیا کے تمام مسائل کا ذمہ دار سابقین کو قرار دیں۔
پاکستان کے مسائل کی بات ہو تو کوشش کریں سنجیدہ بات کرنے کی بجائے دو تین جگتوں اور ایک لطیفے سے کام چلائیں۔
ہاں بدزبانی‘طنز اور تضحیک میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھیں۔ بس آپ ایک ہی وقت میں دھانسو صحافی‘ سینئر تجزیہ نگار اور اعلیٰ برانڈ کے دانشور ہیں۔
خیال رہے آپ کے احباب میں کوئی مریض جمہوریت اور خلق خدا کی حاکمیت کے کینسر کا مریض بالکل نہ ہو۔
آپ پوچھیں گے یہ سب کیسے ممکن ہے تو اپنے چاراور نگاہیں دوڑا کر دیکھ لیجئے سیر پر سوا سیر دانشور‘ سینئر تجزیہ نگار اور دھانسو صحافی قدم قدم پر ملیں گے۔
ارے ایک بات تو میں بھول ہی گیا وہ یہ کہ ماسوائے بیڈ ٹی (وہ بھی اگر آپ پیتے ہوں) کے آپ نے گھر سے کچھ نہیں کھانا۔
مہینہ بھر کے ناشتوں‘ دوپہر وشام کے کھانوں کے علاوہ سپہر کی ہائی ٹی کے پروگرام آپ کی ڈائری میں تحریر ہونا بہت ضروری ہیں۔ جس دن آپ نے گھر میں ناشتہ یا کھانا کھایا اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ گھر والوں کے مسائل ومشکلات پر بھی توجہ دینا پڑے گی۔
دانشور، سینئر تجزیہ نگار اور دھانسو صحافی یہ تینوں شناختیں ایک ذات میں بھی جمع ہوسکتی ہیں بس تھوڑی سی محنت کی ضرورت ہے، کچھ بدزبانی اور قدرے بدلحاذی کی۔ یاد رہے تینوں کا خمیرہ بناتے وقت یہ احتیاط لازم ہے کہ دو دو چمچ سے زیادہ نہ ہوں ورنہ آپ کیساتھ وہی ہوسکتا ہے جو سونا بنانے کا ٹھرک رکھنے پالنے والوں کیساتھ ہمیشہ ہوا۔
آپ دیندار رہنما بننا چاہتے ہیں تو پہلی شرط یہ ہے کہ آپ اپنے دین اور عقیدے سے سرے سے ہی واقف نہ ہوں، دوسروں کے ادیان وعقائد پر چونکہ آپ نے فتویٰ ٹھوکنا ہے اس لئے کسی جانکاری کی ضرورت نہیں۔
فتویٰ دیتے ہوئے زبان چلتی ہے زبان کو ہلانے کیلئے جس نے عقل استعمال کی وہ تو کام سے گیا سمجھو‘ آپ ایک سچے دیندار کھڑک رہنما تبھی بن سکتے ہیں جب آپ ماسوائے خود کے باقی ساری دنیا کو عقل سے پیدل سمجھیں۔
دوسروں کے کفر والحاد کو ثابت کرنے کیلئے آپ نے ہمیشہ اس کتاب کا حوالہ دینا ہے جو مارکیٹ میں دستیاب نہ ہو، زیادہ بہتر رنگ تب جم سکتا ہے جب کتاب اور مصنف کا کبھی وجود ہی نا رہا ہو، نہ کتاب ملے گی نہ آپ کے فتوے کی تردید آئے گی۔
جب دونوں کام نہیں ہوں گے تو آپ کی دینداری کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوسکتا۔
آپ لبرل بننے کے خواہش مند ہیں تو میرا مشورہ یہ ہے کہ کمرشل لبرل بنیں۔
یہ خالی خولی کے لبرلز گمراہ قسم کے لوگ ہوتے ہیں کمرشل لبرل کے طور پر آپ کی مانگ بارڈر کے دونوں طرف رہے گی (یہاں بارڈر سے مراد پاک بھارت‘ پاک افغان یا پاک ایران بارڈر ہرگز نہیں)
میرا مطلب ہے ایک سستی قسم کی این جی او بنائیں منہ ٹیڑھا کرکے اُردو کو انگریزی کا دم دیکر بولیں مگر یاد رہے دیسی لباس اور دیسی آہنگ فروخت نہیں ہوتے۔
جین پرانی اور بوسیدہ ہو‘ روایات‘ اقدار اور ضابطوں کو ہر وقت جوتے کی نوک پر رکھیں۔
ملحد بننے کو جی چُرایا ہے تو آپ کے دیسی الحاد کی پہلی شرط یہ ہے کہ صرف اسلام پر تنقید کرنی ہے مجھ جیسے لاکھ اختلاف کریں پرواہ نہیں، کوئی یہ کہے کہ آپ ملحد ہیں پھر سارے مذاہب سے یکساں سلوک کیوں نہیں کرتے تو منہ توڑ کے جواب دیں۔
منہ توڑ کے جواب دیتے وقت فکرمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
ایک سچا محب وطن بننا چاہتے ہیں تو پہلے جمہوریت پر دو کی بجائے تین حرف بھیجیں۔
سارے فساد کی جڑ یہی جمہوریت ہے
پاکستان کیلئے شاندار ادوار فقط چار تھے، ایوب‘ یحییٰ ‘ ضیاء اور مشرف کے ادوار حکومت
سیاستدان اگر نہ ہوتے تو پاکستان مریخ پر بھی فرنچائزیں فروخت کر رہا ہوتا۔
سیاستدانوں نے ملک کو کچھ نہیں دیا، آپ نے ضد اور ہٹ دھرمی سے یہ ثابت کرنا ہے کہ 1973ء کے آئین کا مسودہ جنرل یحییٰ خان نے لکھوایا وہ تو بدقسمتی سے پاکستان دولخت ہوگیا اسلئے مسودہ ایوان صدر میں ہی رہ گیا۔
ایک اچھے شہری کا فرض ہوتا ہے کہ وہ مسائل ومشکلات کو نصیب کا لکھا سمجھ کر صبر وشکر کرے۔
صبر وشکر سے محروم لوگ نہ تو اچھے شہری بن سکتے ہیں نہ وہ اگلے جہان کی جنت کے حقدار۔
مہنگائی اور بدانتظامی سمیت دوسرے سارے مسائل کا ذمہ دار سابق حکمرانوں کو قرار دینا بہت ضروری ہوتا ہے۔
آپ جرأت کیساتھ یہ کہہ سکتے ہیں، بھٹو کو جنرل ایوب لائے حالانکہ یہ غلط ہے مگر غلط صحیح آپ کا مسئلہ نہیں، اُٹھتے بیٹھتے اگر آپ مسائل ومصائب کو دین سے دوری اور مغرب پسندی کا نتیجہ قرار دیتے رہیں تو یہ آپ کی اضافی خوبی ہوگی۔
آپ کو ہمیشہ یہ یاد رہنا چاہئے کہ حکمران وقت کی اطاعت اچھے مسلمان شہری کی پہلی نشانی ہے۔
نااہل اور کرپٹ لوگوں کا جب بھی تذکرہ کریں جہانگیر ترین سے پانچ کلومیٹر دور سے راستہ بدل لیں۔
کیونکہ پیا چاہے تو کوئی آنگن میں ناچتا ہے۔
ارے ہاں یہ ناچ گانا‘ شادی بیاہ کی رسمیں‘ سالگرہ یہ سب فضول چیزیں ہیں۔ پاکستان ایسا غریب اور خصوصاً نظریاتی ملک ان کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
آپ اُٹھتے بیٹھتے ہر وقت عزیز واقارب اور دوستوں کو صابر وشاکر اور ارشاد کی طرف متوجہ رکھیں۔
فیض‘ جالب‘ فراز اور اس قماش کے شاعروں کے منفی اثرات کو دور کرنے کیلئے حکومت وقت پر زور دیں کہ وہ میٹرک میں نسیم حجازی‘ ایف اے میں الیاس سیتا پوری‘ بی اے میں طارق اسماعیل ساگر اور ایم اے میں موت کا منظر کو لازمی قرار دے۔
پیارے قارئین بالائی سطور میں جتنے نسخے اور ٹوٹکے لکھے ہیں یہ سب فقیر راحموں نے لکھوائے ہیں، ان کی سزا وجزا کا حقدار وہی ہے۔
میں تو شاہانہ رئیس ایلیا کی کتاب ’’چچا جون‘‘ پڑھنے لگا ہوں آپ کا جو دل چاہے کریں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn