Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

نفرتوں کو نہیں علم’ محبت اور برداشت پروان چڑھائیں

بلاول کی والدہ ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی ضرور تھیں مگر سیاسی جدوجہد اور استقامت کے حوالے سے پاکستانی سیاست کا روشن چہرہ ہیں۔ تیسرے فوجی آمر کے دور میں بے نظیر بھٹو اور ان کی والدہ پر جو ستم بیتے وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔
بے نظیر بھٹو نے اور کچھ بھی نہ کیا ہو اس ملک کے لئے تو بھی ان کی ایک خدمت ایسی ہے جو ہمیشہ یاد گار رہے گی۔
وہ ہے شمالی کوریا سے میزائل پروگرام پاکستان لانا۔
اس عمل کے کچھ دن بعد جب امریکیوں کو معلوم ہوا کہ میزائل پروگرام شمالی کوریا سے پاکستان لے جانے والی محترمہ بے نظیر بھٹو تھیں تو سی آئی اے کے اس وقت کے سربراہ نے کہا ”ہمیں معمولی سی بھنک بھی پڑ جاتی تو بے نظیر بھٹو کے طیارے کو مار گراتے”۔
اس پروگرام کی فلاپی وہ اپنے جسم سے باندھ کر لائی تھیں۔ خطرہ تھا جان بھی جاسکتی تھی لیکن اپنے ملک کی خاطر انہوں نے خطرہ مول لیا۔ کبھی حب الوطنی کی سند مانگی نہ نشان امتیاز۔
ہمارے ہی سماج کے دوسرے انسانوں کی طرح وہ بھی انسان تھیں کچھ سیاسی غلطیاں ان سے بھی سرزد ہوئیں مگر بڑے ظرف کی مالک تھیں۔ 
جس نواز شریف نے 1988ء کے انتخابات میں ان کی اور ان کی والدہ کی بدترین کردار کشی کی سیاسی عمل کے لئے انہوں نے بالآخر اس کے ساتھ اے آر ڈی میں بیٹھنا قبول کیا۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا’ آپ ضیاء الحق دور میں بنی ایم آر ڈی( تحریک بحالی جمہوریت) کو دیکھ لیجئے’ اس میں اصغر خان بھی تھے جو کوہالہ کے پل پر بھٹو کو پھانسی لگانے کا شوق رکھتے تھے۔
این ڈی پی جو بعد ازاں اے این پی بنی بھی تھی جس کے قائد عبدالولی خان نے حیدر آباد جیل سے رہا ہوتے ہی پہلے احتساب اور پھر انتخاب کا نعرہ لگایا۔ جنرل ضیاء الحق نے انتخابی عمل سے فرار کی راہ اسی نعرے کی بنیاد پر اختیار کی۔ 
جے یو آئی مفتی محمود اور پی ڈی پی بھی شامل تھی تو مسلم لیگ خواجہ خیر الدین گروپ بھی۔ یہ وہ جماعتیں تھیں جو امریکہ اور جنرل ضیاء الحق کی سرپرستی میں قائم پاکستان قومی اتحاد کاحصہ رہیں وہی قومی اتحاد جس کے قائدین 1977ء کے انتخابی جلسوں میں بھٹو کو گھاسی رام اور ان کے والدہ مرحومہ کو جو کہتے تھے ان سطور میں لکھنے سے قاصر ہوں۔ 
1977ء کے انتخابات کو کفر و اسلام کا معرکہ بنا کر پیش کیاگیا۔ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا ابتداء میں قومی اتحاد کی جماعت مسلم لیگ ان کی حکومت کا حصہ بنی۔ پھر قومی اتحاد نے باقاعدہ حکومت کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔ تحریک استقلال’ پی ڈی پی’ جماعت اسلامی اور جے یو آئی مفتی محمود گروپ کو وزارتیں ملیں۔

یہ بھی پڑھئے:  کل ’’الیکشن‘‘ یا ’’سلیکشن‘‘

لے دے کر صرف اے این پی یعنی اس وقت کی این ڈی پی نے فوجی حکومت میں وزارتیں حاصل نہ کیں۔ خاکسار تحریک والے اشرف خان کو کسی نے پوچھا نہ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس والے سردار عبدالقیوم کو جو چند برس بعد جنرل ضیاء الحق کے مرشد قرار پائے۔
جماعت اسلامی تو جنرل ضیاء الحق کی بی ٹیم بن گئی۔ سیاسی کارکنوں کی مخبریاں اور بعض کے خلاف فوجی عدالتوں میں سرکاری گواہ بنے ان کے صالحین۔
مگر جب ایم آر ڈی قائم ہوئی تو بحالی جمہوریت پر اتفاق رائے ہوا۔ 
سردار شیر باز خان مزاری کی قیام گاہ پر منعقدہ ایک اجلاس میں محترمہ بیگم نصرت بھٹو نے کہا’ "سیاسی عمل میں ذاتی دشمنیاں نہیں ہوتیں اس لئے پیپلز پارٹی اے آر ڈی میں پی این اے کی بعض جماعتوں کی شمولیت کی مخالفت نہیں کرے گی”۔
مولانا مفتی محمود مرحوم تب واحد شخص تھے جنہوں نے کہا سیاسی اختلاف رائے کو دشمنیوں اور کفر و اسلام کے معرکہ میں تبدیل کرنے کی روش کا نقصان ہمارے سامنے ہے۔ 
ایم آر ڈی کی پاکستان بچائو تحریک شروع ہوئی حاجی غلام احمد بلور اپنی سہ مائی باری پر اس کے کنونیئر تھے یہ کہہ کر تحریک سے الگ ہوگئے کہ ہم خدائی خدمتگار عدم تشدد پر یقین رکھتے ہیں تحریک میں تشدد در آیا ہے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ تشدد ایم آر ڈی کے کارکنوں کو نہیں ریاست کو مرغوب تھا۔ 
بعد کے سالوں میں بے نظیر بھٹو نے کبھی اے این پی کے دوستوں سے شکوہ نہیں کیا۔ ایم آر ڈی کے ایک اور رہنما سردار عبدالقیوم خان جنرل ضیاء الحق کے کیمپ میں چلے گئے’ پھر مرشد کہلائے۔
بھٹو 16 دسمبر1971ء کے سقوط ڈھاکہ کے بعد اقتدار میں آئے۔ بغاوت کا خطرہ بھانپ کر انہیں اقتدار دیا گیا۔ چند ماہ بعد ہی سازشوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
جنرل گل حسن بھی ایک ڈھیلی ڈھالی سازش کے روح رواں تھے۔ 
1974ء میں راولپنڈی سمیت ملک بھر کی دیواروں پر ایک پوسٹر لگا ہوا تھا۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل ٹکا خان کی تصویر لگی ہوئی تھی اور لکھا تھا

یہ بھی پڑھئے:  بے حد رمزاں دسدا نی میرا ڈھولن ماہی

”مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے”

پچھلے 49برس کی سیاسی تاریخ کے جستہ جستہ حوالے لکھنے کا مقصد فقط یہی ہے کہ جب جب بھی سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی اور نفرت کی بھینٹ چڑھایا گیا نقصان عوام اور جمہوریت کا ہوا۔ یہاں یہ عرض کردوں کہ طبقاتی جمہوریت کے کوچے سے عوام کے حق حکمرانی والی جمہوریت کا راستہ نکالا جاسکتا ہے۔ مسلط کردہ حکومتوں اور مارشل لائوں کے ادوار میں نہیں۔
بلاول اپنے نام کے ساتھ اپنی والدہ کے نام کے ایک حصہ کو لکھتے ہیں تو برائی کیا ہے۔ ماں تو اولاد کے لئے فخر ہوتی ہے’ عمران خان نے بھی تو کینسر ہسپتال والدہ کے نام پر ہی بنایا ہے۔
بلاول سیاسی عمل کا حصہ ہے وہ آصف زرداری اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا بیٹا ہے۔ سیاست میں موروثیت کا میں بھی ناقد ہوں لیکن اگر کوئی محترمہ بے نظیر بھٹو’ اسفند یار ولی اور مولانا فضل الرحمن کی طرح سیاسی جدوجہد سے مقام حاصل کرتا ہے تو کیا برائی ہے۔ 
یہاں وکیل کا بیٹا وکیل’ مولوی کا مولوی’ جج کا جج’ ڈاکٹرکا بیٹا ڈاکٹر بنتا ہے۔ خود میری بیٹی صحافی بننے جا رہی ہے( ابھی زیر تعلیم ہے) تو کیا یہ نا درست عمل ہے؟۔ عرض کرنے کا مقصد یہی ہے’ سیاست کو سیاست رہنے دیجئے’ نفرتوں اور دشمنیوں کے زخم خوردہ ہیں ہم لوگ بہت خوف آتا ہے نفرت بھری سیاست سے۔ اگلی نسلوں کو علم’ محبت’ برداشت ورثے میں دیجئے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس