یہ زکر ہے فرزند حسین ابن علی کا
گلزارِ محمد کی ترو تازہ کلی کا
والیل کی سی اکبرِ مہہ رو کی تھیں زلفیں
والفجر سا چہرہ تھا ولی ابنِ ولی کا
آنکھوں میں بڑی نرم مودت کی دمک تھی
ہونٹوں پہ چمکتا سا ستارا تھا ہنسی کا
گفتار میں کردار میں تمثیل محمد ص
تیور تھے علی جیسے تو انداز نبی کا
عباس نے اندازِ حرب ان کو سکھائے
آتا تھا ہنر ان کو بھی خیبر شکنی کا
موت ہم پہ پڑے آکے یا ہم موت پہ مولا
پروا ہی نہیں کوئی یہ کہنا تھا جری کا
لاڈوں سے اسے زینبِ دلگیر نے پالا
مادر سے نہیں کم تھیں وہ بیٹا تھا پھپی کا
انگشتری اکبر کے دہن میں رکھی بولے
لو بیٹا بڑا کرب تھا ناں تشنہ لبی کا
کوثر پہ تری پیاس بجھے گی مرے بچے
ملتا ہے وہاں جام سخی ابنِ سخی کا
لو دیتے کلیجے کو لیے ساتھ ہی نکلی
صد حیف ستم ہائے وہ برچھی کی آنی کا
بند آنکھوں سے صغری کو بلکتے ہوئے دیکھا
منظر تھا تخیل میں مدینے کی گلی کا
وہ آخری انگڑائی وہ ہچکی وہ تڑپنا
سچ ہوچھیے شبیر پہ لمحہ تھا صدی کا
ماں خواب میں کہتی ہے سنا مجلس اکبر
احساس تجھے ہو جو کبھی کوئی کمی کا
خوش بخت کہ توفیقِ سخن ہے مجھے ثروت
مرقد میں اجالا ہے مرے حرفِ جلی کا
ڈاکٹر ثروت رضوی
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn