25جولائی کے انتخابی نتائج 26جولائی کی صبح دس بجکر بارہ منٹ تک بھی مکمل نہیں ہوپائے ۔ غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی 125۔ نون لیگ 70اور پیپلز پارٹی کو 41نشستوں پر فیصلہ کن برتری حاصل ہے خیبر پختونخوا میں معرکہ تحریک انصاف نے مارا ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی سادہ اکثریت سے 8قدم آگے اور نون لیگ پنجاب میں سادہ اکثریت سے 21قدم پیچھے ہے ۔ بلوچستان کا حال حسب حال ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے پاس 14اور بی این پی و ایم ایم اے کے پاس صوبائی اسمبلی کی آٹھ،آٹھ نشستیں ہیں ۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کے پاس 122نشستیں ہیں ،وزارت اعلیٰ کے لئے اس کے مضبوط امیدوار مخدوم شاہ محمود قریشی ملتان سے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب اور صوبائی اسمبلی کی نشست پر پی ٹی آئی کے باغی امیدوار سلمان احمد سے ہار گئے ۔ شاہ محمود سندھ سے بھی قومی اسمبلی کی دو نشستوں سے ہارے ہیں ۔
ہمارے ممدوح حضرت مولانا فضل الرحمن ، اور سراج لالہ (سراج الحق) بھی شکست سے دوچار ہوئے ، شہباز شریف لاہور سے جیتے لیکن ،سوات ، کراچی ڈیرہ غازی خان سے ہار گئے ۔ بجلی کی بندش کی وجہ سے استری گرم نہیں ہو پائی جس کی وجہ سے استری کی کے نشان والے بھی گھر بیٹھے رہ گئے ۔ سندھ میں جی ڈی اے قومی اسمبلی کی 8اور صوبائی اسمبلی کی 12نشستوں پر آگے ہے ۔ ایم ایم اے پارٹ 2کو قومی اسمبلی کی نشستوں پر برتری حاصل ہے ۔ ہماری پہلی سیاسی و نظریاتی محبت اے این پی قومی اسمبلی کی ایک نشست لے پائی جبکہ صوبائی اسمبلی میں اس کے حصے میں 8نشستیں آئیں۔ مرشدی سید یوسف رضا گیلانی صاحبزادوں سمیت ہار گئے ۔
تحریک انصاف نے پنجاب میں نون لیگ کے قلعہ میں گہرا شگاف ڈالا اور کراچی میں تقسیم شدہ ایم کیو ایم کے مینڈیٹ میں سے بڑا حصہ کھرا کر لیا ۔ بلاول کے پی کے اور لیاری سے ہار گئے لیکن لاڑکانہ سے برتری رکھتے ہیں ۔ نون لیگ کے صدر شہباز شریف نے انتخابی نتائج کو مسترد کردیا ہے ۔ ایم کیو ایم مینڈیٹ چرانے کا الزام دھر رہی ہے پیپلز پارٹی کو انتخابی عملے اور الیکشن کمیشن سے شکایات ہیں ۔ بدھ 25جولائی کو منعقد ہونے والے انتخابات کے حوالے سے شکایات و تحفظات کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں زیادہ تر شکایات پولنگ عملے کی نا اہلی ، جانبداری ، فارم 45نہ دینے ، گنتی کے وقت پولنگ ایجنٹوں کو نکال باہر کرنے کی ہیں ۔ بدھ کا دن بلوچستان کے لئے قیادت صغریٰ ثابت ہوا کوئٹہ میں خود کش حملے میں 32شہری شہید اور 50سے زیادہ زخمی ہوگئے ۔ عمران خان اپنی پانچوں نشستیں جیت گئے۔
سندھ میں قوم پرستوں نے جی ڈی اے کے پلڑے میں وزن ڈالا جبکہ سرائیکی وسیب کے قوم پرست واضع طور پر دو حصوں میں تقسیم دکھائی دیئے۔ ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں قوم پرست تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ملتان ڈویژن میں تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی تھے اور چند نشستوں پر قوم پرست تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہوئے ۔ ملتان ڈویژن میں تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی تھے اور چند نشستوں پر قوم پرست جماعتوں کے امیدوار بھی ۔ بہاولپور ڈویژن میں قوم پرستوں نے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی حلقہ وار بنیاد پر حمایت کی ، پی پی پی ، ایم کیو ایم کے دونوں دھڑوں ، پی ایس پی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اے این پی ، ایم ایم اے کو نتائج مرتب کرنے کے عمل پر اعتراضات ہیں اور کسی حد تک یہ درست بھی ہیں دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اعتراضات کا تسلی بخش جواب دیتا ہے یا پھر چیف الیکشن کمشنر کا یہ فرمان صادق قرار پاتا ہے کہ آپ چند جماعتوں کو سچا اور الیکشن کمیشن کو جھوٹا کیوں سمجھتے ہیں ، صوبہ پنجاب سے پیپلز پارٹی کی جیتی ہوئی تینوں نشستوں کا تعلق سرائیکی وسیب سے ہے ۔ مخدوم فیصل صالح حیات ، نور ربانی کھر اور مرتضیٰ محمود کو اپنی نشستوں پر واضح برتری حاصل ہے۔
رات ایک بجے تک پیپلز پارٹی کی پنجاب اسمبلی میں 29نشستوں پر برتری دکھائی جارہی تھی پھر ایک بجکر 37منٹ پر یہ 3 نشستوں پر آگئی 29اور 3میں بہت فرق ہے ۔ جیالوں کا دعویٰ ہے کہ سازش کرنے والے خوفزدہ تھے کہ کہیں نون لیگ 128اور پی پی 29نشستوں کو ملا کر مخلوط حکومت نہ بن جائے۔ پیپلز پارٹی کا الزام ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کی بجائے الیکن کمیشن کو اس کی وضاحت کرنی چاہیئے ۔ بدھ کو صوابی ، سانگھڑاور دوسرے چند مقامات پر رائے دہند گان کے درمیان تصادم کے واقعات بھی ہوئے۔ لاڑکانہ میں بلاول بھٹو کے پولنگ کیمپ پر گرینڈ کا حملہ ہوا گرینڈ کے اس حملے کو کریکر کا حملہ قرار دینے والے اس سوال کا جواب نہیں دے رہے کہ کریکر حملے سے 5افراد شدیدزخمی ہوگئے ؟۔انتخابی نتائج ابھی آرہے ہیں تینوں بڑی جماعتوں کی عددی برتری میں حتمی نتائج سے معمولی ردوبدل ممکن ہے ۔پی ٹی آئی کو وفاق میں حکومت سازی کے لئے 28اور پنجاب میں 27نشستوں کی ضرورت ہے ۔ دونوں جگہ اس کے ممکنہ اتحادی کون ہو سکتے ہیں ۔ کیا آزاد جیتنے والے ہوا کا رخ دیکھ کر پی ٹی آئی کی طرف جائیں گے ؟ سادہ سا جواب یہ ہے کہ آزاد امیدوار خسارے کا سودا نہیں کرتے ۔ قومی اسمبلی اور پنجاب میں وہ تحریک انصاف کے ساتھ جائیں گے ۔
سندھ میں چونکہ پی پی پی کے پاس 73نشستیں ہیں اس لئے یہ خطرہ نہیں ہے کہ ایم کیو ایم ۔ پی ٹی آئی اور جی ڈی اے ملکر مخلوط حکومت بنانے کی طرف پیش قدمی کریں ۔ انتخابی نتائج کسی کی جیت کسی کی ہار کی صورت لئے ہوتے ہیں ۔ تسلسل کے ساتھ طبقاتی نظام تیسرے دور میں داخل ہونے کو ہے عوامی جمہوریت کا قیام ابھی جاگتی آنکھ کا خواب ہی ہے۔ بہرطور پی ٹی آئی کو وفاق اور خیبر پختونخواہ میں فیصلہ کن جیت مبارک ہو۔ اب یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ انتخابی ماحول میں پیدا ہوئے تناؤ کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کرے اور اپنے 100 دن کے اعلان کردہ ایجنڈے پر عمل کو یقینی بنانے کے ساتھ ان گھمبیر مسائل پر توجہ دے جن سے شہریوں کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔ حرف آخر یہ ہے کہ انتخابی سیاست میں بھی کھیل کے میدان والی سپورٹس مین سپرٹ کے مظاہرے کی ضرورت ہے۔ گردن تک قرضوں میں دھنسے ملک کو بہت سارے بحرانوں اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ اپنی اٹھان کی بنا پر تحریک انصاف کے لیے دوسروں کو ساتھ لے کر چلنا مشکل ہوگا لیکن بڑے پن کا مظاہرہ اسی کو کرنا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ امید کی جانی چاہیے کہ پنجاب اسمبلی میں آزاد حیثیت سے جیتنے والوں کو اپنی مرضی کی جماعت کا انتخاب کرنے دیا جائے گا۔ ثالثاََ یہ کہ انتخابی عمل میں بدکلامی اور سستی جذباتیت کا مظاہرہ کرنے والے رضا حیات ہراج کے مقابلہ میں سنجیدہ فکر اور باشعور سید فخر کی کامیابی خوش آئند ہے۔
بشکریہ مشرق پشاور
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn