Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

نون لیگ کا دور اقتدار تمام ہوا

طبقاتی جمہوریت کا ایک اور پانچ سالہ دور مکمل ہوا۔ نون لیگ کا وفاق اور تخت پنجاب کا اقتدار تمام ہوا۔ وزیر اعظم عباسی نے قومی اسمبلی میں الوداعی خطاب کرتے ہوئے اپنی جماعت کے دور اقتدار کے گن گائے اور ترقی کے حوالے سے زمین و آسمان کے قلابے ملائے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ دوسرا موقع ہے۔ سازشوں‘ نوٹسوں‘ کہہ مکرنیوں اور انگنت گھاتوں کے باوجود طبقاتی نظام نے مدت پوری کی۔ عوام کو اس سے کیا ملا اور بالا دست اشرافیہ کو کیا لمبی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں۔ سچ یہ ہے کہ نون لیگ 2008ء سے 2013ء کے درمیان جو بوتی رہی اپنے دور میں دانتوں سے کاٹنے پر مجبور ہوئی۔ چور بازاری اور کرپشن کے ریکارڈ اشتہارات کی برسات میں دھلتے رہے۔

پنجاب میں صرف پینے کے پانی والی کمپنیوں کے نام پر 196 ارب کا فراڈ ہوا۔ بندر بانٹ ہوئی‘ خیر کی خبریں سندھ سے آئیں‘ پختونخوا سے نا بلوچستان سے۔ بچھو سے کسی نے دریافت کیا تمہارا سردار کون ہے اس نے جواب دیا کہ جس کی دم پر ہاتھ رکھو وہی سردار ہے۔ لاریب کرپشن میں دوسرے ادارے بھی اپنی مثال آپ ہیں ہمیشہ سے سیاستدان آسان ٹارگٹ اس لئے بنتے ہیں کہ اوپر والوں کے تعاون کے ساتھ ووٹ بھی لیتے ہیں۔ اوپر والوں کی حکمت عملی یہی ہوتی ہے کہ کھائو مل بانٹ کر ذلیل صرف سیاستدانوں کو کروائو۔ الوداعی خطاب میں وزیر اعظم کو گروتھ کمیشن یاد آیا کیا پارلیمنٹ کو اس پر کام کرنا چاہئے۔ ’’’ کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ‘‘ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ایسے وقت میں مدت پوری کر پائی جب اس کے بڑے مالک کرپشن کیسز کا سامنا کر رہے ہیں۔ کیا نون لیگ مستقبل کی سیاست کے لئے ماضی کو راہنما بنائے گی؟

مکرر عرض کرتا ہوں طبقاتی نظام کے کوچے سے عوامی جمہوریت کے لئے راستہ نکالا جاسکتا ہے پابند جمہوریت تو مصیبت ہے نری مصیبت۔ کوئی ہے جو اس حقیقت کو سمجھنے کی شعوری کوشش کرے۔ ہمیں فتووں سے اجتناب کرنا ہوگا حب الوطنی پر انگلیاں اٹھانے سے بھی۔ اداروں کے تعاون سے کراچی میں بہتری آئی۔ لیکن دہشت گردی مکمل طور پر ختم نہیں ہوسکی۔ بجلی کی پیداوار کے بلند وبانگ دعوئوں کی حقیقت یہ ہے کہ نندی پور اور بھکی پاور پلانٹ محض چند میگا واٹ بجلی ہی پیدا کر پائے 16گھنٹے کی لوڈشیڈنگ بہر طور 4 سے 6 اور دیہاتوں میں دس گھنٹوں کی سطح پر آگئی ہے۔ مہنگائی اور شرح غربت میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ پٹرولیم مصنوعات عالمی منڈی میں ارزاں تھیں لیکن پاکستان میں خیر جانے دیں۔ پارلیمان بے توقیر رہی 187قوانین بنے پانچ برسوں کے دوران۔ فاٹا انضمام تاریخی کام ہے مگر ہمارے مولانا اس کا کریڈٹ ’’ کسی اور‘‘ کو دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  عبدالستار ایدھی ۔۔۔اک گوہر نایاب

اسٹریٹ کرائمز اور جنسی ہراسگی کے کیسز میں اضافہ ہوا۔ بچوں اور بچیوں سے درندگی کے واقعات بڑھ گئے۔ قصور میں بچوں سے درندگی کے واقع میں نون لیگ کا ایم پی اے سرپرست تھا۔ پورے پانچ سال نون لیگ کی حکومت عوام کی حکومت نہ بن سکی۔ ایک حکومت کو تعلیم و صحت اور ترقی کے حوالے سے جو اہداف حاصل کرنا چاہئے تھے وہ حاصل نہیں ہو پائے۔ سڑکیں بنیں‘ پل بھی‘ میٹرو‘ اورنج بھی لیکن روز گار کے نئے ذرائع پیدا نہ ہو سکے۔ پنجاب میں تو باوا آدم ہی نرالا رہا۔ ’’ مسٹر کلین‘‘ شہباز شریف کی ناک کے نیچے دھڑلے سے کرپشن ہوتی رہی اوروہ دیکھ نہ پائے۔ وجہ بیٹے کی محبت تھی یا داماد علی عمران کی یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ علی عمران ان کی دامادی میں آئے تو پورے لاہور میں تین دکانوں کے مالک تھے اب اربوں پتی ہیں۔

نون لیگ کا اقتدار تمام ہوا اچھا برا جو بھی تھا سب کے سامنے ہے۔ ایک کامیابی اس کی بہر طور ہے وہ یہ کہ اسے میڈیا منیجری کے ہنر آتے ہیں۔ اس لئے میڈیا جیب کی گھڑی بنا رہا۔ پنجابی میڈیا کو پختونخوا اور سندھ میں کچرا تک دکھائی دیا لیکن تخت لہور میں 200 ارب کا فراڈ دکھائی دیا نا یہ معلوم ہوا کہ کس وزیر کی اہلیہ 16لاکھ روپے ماہوار پر ملازم ہیں کس کا بھائی 13لاکھ روپے پر۔ پانچ برسوں میں احد چیمہ اور علی جان نامی بیورو کریٹ کا پنجاب اور فواد حسن فواد کا وفاق میں طوطی بولتا رہا۔ ان پانچ برسوں کی ایک نیک کمائی ماڈل ٹائون میں 2خواتین سمیت 14افراد کا سفاکانہ قتل ہے۔ اس واردات میں پنجاب پولیس نے نجی لشکر کا کردار ادا کیا۔ ایل ڈی پلازہ میں آگ لگی میٹرو کا ریکارڈ جل گیا۔ چند دن قبل لاہور میں ریلوے ہیڈ کوارٹرز میںآگ لگی قیمتی اور حساس ریکارڈ جل کر راکھ ہوا۔ نون لیگ پر آگ ہمیشہ مہربان رہی۔ کبھی اتفاق فونڈری کی بھٹی ریلوے کا انجن کھا جاتی تھی اب آگ ریکارڈ کھا جاتی ہے‘ کرلو جو کرنا ہے۔ اب آگے انتخابات کا موسم ہے۔ فقیر راحموں اب بھی اس بات پر قائم ہیں کہ انتخابات مقررہ وقت پر نہیں ہوں گے۔ دال میں کچھ کچھ کالا ہے۔ حلقوں والے حلقائے ہوئے بنی گالہ پہنچ رہے ہیں۔ مہربان کچھ زیادہ ہی مہربان ہیں۔ ان سطور کے لکھے جانے تک صرف وفاق میں نگران وزیر اعظم کا فیصلہ ہوا۔ پنجاب میں متفقہ فیصلے سے تحریک انصاف پیچھے ہٹ گئی۔ کیوں؟ یہ الگ موضوع ہے۔ دیکھتے ہیں صوبوں میں نگران حکومتوں کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ حرف آخر یہ ہے کہ نہ صرف انتخابات وقت پر ہوتے دکھائی نہیں دے رہے بلکہ دھول اڑنے اور خون بہنے کے خدشات ہیں۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو اور ہر چیز اپنے وقت پر ہو۔
بشکریہ مشرق پشاور

یہ بھی پڑھئے:  ایک اور نجی چینل بند ہوا

حالیہ بلاگ پوسٹس