Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

سرائیکی وسیب کیا سوچ رہا ہے؟

روزگار سے بندھی ہجرتوں کے اسیر لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مصروفیات میں سے بچ رہنے والے وقت میں جنم بھومی سے سندیسوں اور بلاوے کے منتظر رہتے ہیں۔ فطرت یہی ہے کہ انسان جہاں پیدا ہو، پلا بڑھا ہو وہ جگہ گاؤں، قصبہ یا شہر ہمیشہ عزیز جاں رہتا ہے۔ پچھلے ہفتے کے چند دن ایک بار پھر جنم شہر ملتان اور سرائیکی وسیب میں بسر کئے۔ وسیب کے کچھ فعال و ذی فہم دوستوں اور تنظیموں نے باہمی مشاورت سے سرائیکی گریجویٹس ایسوسی ایشن، کلچر وطلبا کمیٹیوں کے ساتھ ایس جی اے سرائیکستان گرینڈ الائنس کے نام سے قوم پرستوں کا اتحاد قائم کیا۔ قومی خود مختاری سے محروم وسیب زادوں کے اعلان فاضل پور نے قوم پرستوں میں ایک نئی روح پھونک دی۔ بلاشبہ دوسری قوموں کی طرح سرائیکی وسیب کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اجتماعی شعور کو زبان دے، آواز بنائے اور عملی میدان میں حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد کرے۔

 روزگار کے مقام (لاہور) سے چند روزہ غیر حاضری کی وجہ سے لکھنے پڑھنے سے قدرے دور رہا۔ مجبوری یہ تھی کہ اپنی ذات پر اپنے وسیب اور لوگوں کا حق ہمیشہ تسلیم کیا۔ لاریب کوئی بھی باشعور اور روشن ضمیر شخص اپنی قومی شناخت سے کٹ کر نہیں جیتا۔ حسن زندگی یہی ہے کہ اپنے لوگوں، پیاروں اور وسیب کے ساتھ کھڑا ہوا جائے۔ اسمبلیوں اور حکومتوں کی مقررہ وقت پر رخصتی کے ماحول میں انتخابات کا پھر سماں بن رہا ہے۔ اس میں چند خاندانی وفاداروں کے ٹولے نے پہلے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے نام سے سیاسی اتحاد کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے بلند وبانگ دعوے کئے۔ یہ خاندانی وفادار ذاتی نشستوں والے ہر انتخابات سے قبل اڑان بھر کر کسی نئی منڈیر پر ڈیرے ڈالتے ہیں۔ اس بار زیادہ تر تحریک انصاف کی منڈیر پر اُتر رہے ہیں۔پاکستانی سیاست کی ترجیحات کو سمجھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ الیکٹیبل کس کے وفادار ہیں اور کس کے اشارے پر اُڑان بھرتے ہیں۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ قائم ہوا تو سادہ اطوار لوگ تالیاں پیٹتے پھر نام سے اختلاف کے باوجود ہمارے دوستوں کی رائے یہ تھی کہ قومی تحریک چونکہ طبقاتی تحریک نہیں ہوتی اس لیے تنقید وتائید ہر دو میں جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  بات کچھ بن نہیں رہی

اس کے باوجود یہ ہوا کہ قوم پرستوں اور اہل دانش نے نہ صرف شدید ردعمل کا اظہار کیا بلکہ مخدوموں اور سرداروں کے اس گروپ کے ماضی وحال پر بحث نے ہنگامہ کھڑا کردیا۔ اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے الیکٹیبلز کے مالکان نے فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کو بنی گالہ شریف کا راستہ دکھایا اور ایک گرم دوپہر میں جنوبی پنجاب صوبہ محاذ تحریک انصاف میں ضم ہوگئی۔ چند دن بعد بہاولپور صوبہ بحالی تحریک کی علمبردار بہاولپور عوامی نیشنل پارٹی اپنے مالک اول نواب صلاح الدین عباسی سمیت پی ٹی آئی میں اُتر گئی۔ یہ وہ واقعات تھے جنہوں نے سرائیکی وسیب کے ادیبوں، شاعروں دوسرے اہل دانش اور قوم پرستوں کو مل بیٹھ کر سوچنے سمجھنے کی دعوت دی۔ 40 برسوں سے الگ صوبے کے قیام کیلئے جدوجہد کرتے زمین زادوں کو احساس ہوا کہ ان کی تحریک کو پوری کرنے کا سامان ہو رہا ہے۔ ان حالات میں کچھ نے سرائیکی صوبہ محاذ کو پھر سے فعال کرنے کا بیڑا اُٹھایا اورکچھ دوستوں اور تنظیموں نے ’’سرائیکستان گرینڈ الائنس‘‘ کے نام سے میدان میں اُترنے اور جدوجہد کے بنیادی مقاصد کو مسخ ہونے سے بچانے کے عزم کا اظہار کیا۔ فیڈریشن کی موجودہ صوبائی حدبندیوں میں 6کروڑ سے زیادہ سرائیکی ستر سالوں سے جس صورتحال کا شکار ہیں اس کا احسا س تو سبھی کو ہے مگر کھول کر بات کرنے والوں میں فقط پیپلزپارٹی تھی۔

سیاسی جماعتوں کی اپنی ضرورتیں اور مجبوریاں ہوتی ہیں یقیناََ پیپلز پارٹی کی بھی ہوں گی پھر بھی حقیقت یہ ہے کہ اس حوالے سے وسیب کے لوگوں کی جتنی اشک شوئی پیپلز پارٹی نے کی دوسروں کیلئے ممکن نہیں۔زمینی حقائق یہ سمجھاتے ہیں کہ آئندہ انتخابات کے دوران سرائیکی صوبہ کا ایشو اہم ترین ہوگا۔ قوم پرست یا وفاقی سیاست کرنے والی جماعتیں دروازے بند کر کے نہیں بیٹھ سکتے۔ نئی صوبائی اکائی کی حدود کیا ہوں گی۔ تقسیم کیسے ہوگی یہ اور ان سے جڑے دوسرے معاملات پر بہرطور مکالمے کی ضرورت ہے۔ یہ مکالمہ دوطرح کا ہوگا اولاً قوم پرستوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان۔ ثانیاً قوم پرستوں اور وسیب کے مختلف طبقات کے درمیان۔ دونوں کی اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ 1947کے بٹوارے کی بدولت سرائیکی علاقوں میں آن آباد ہوئے برادران ایک طبقہ ہیں اور جولائی 1977ء کے بعد سے وسطیٰ پنجاب اور دیگر علاقوں سے کاروبار، زراعت اور ملازمتوں کے حوالے سے آن بسنے والے دوسرا طبقہ، صاف سیدھی بات یہ ہے کہ قدیم زمینی تاریخی وتہذیبی بنیادوں پر قومی شناخت رکھنے والوں اور دو نئے طبقات کے درمیان اتحاد واتفاق بہت ضروری ہے۔ معاملات کو سیاسی شعور کی روشنی میں دیکھنا سمجھنا بہت ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  محسن نقوی کا نوحہ - اختر عباس

 وفاقی سیاست کرنے والی جماعتیں سرائیکی وسیب کو کیا دے سکتی ہیں، کون کس حد تک ساتھ دے گا اس پر بات چیت کے دروازے بند نہیں کئے جاسکتے۔ پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ایک ترقی پسند سیکولر معاشرے اور نظام کیلئے کس میں کتنا اخلاص ہے اور اس کا منشور اس حوالے سے کیا کہتا ہے۔ جنرل ضیاء دور میں بوئی گئی خوف پرستی کے تناور درخت سرائیکی وسیب میں موجود ہیں۔ کچھ بدمست لوگ لسانی تعصب کے بیج بونے میں بھی مصروف ہیں۔ قوم پرستوں کو حکمت عملی کے ساتھ دونوں خطرات سے نمٹنا ہوگا۔ اس عمل میں جو سیاسی جماعت استقامت کے ساتھ سرائیکی وسیب کا ساتھ دے گی اس کی کارکردگی بہتر رہے گی۔ دیکھئے کہ کون وسیب کے دردوں کی دوا کرتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ مشرق پشاور

حالیہ بلاگ پوسٹس