Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

دو تین ارے نہیں چار باتیں

پنجاب کی اپوزیشن کو شکوہ ہے کہ نگران وزیراعلیٰ کے نام پر مشاورت کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید سے ملاقات پر آمادہ نہیں ہیں۔ چند دن قبل اپوزیشن نے وزیراعلیٰ کی طرف سے بنائی گئی وزراء کی کمیٹی سے مشاورتی ملاقات سے انکار کر دیا تھا۔ اپوزیشن کا موقف ہے کہ آئین میں نگران حکومتوں کی سربراہی کیلئے وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کی اپوزیشن لیڈروں (اسمبلیوں میں) سے مشاورت کا لکھا ہے ہم رانا ثناء اللہ وغیرہ سے ملاقات کیوں کریں۔

کیا وزیراعلیٰ پنجاب کا تکبر انہیں روکے ہوئے ہے یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ وہ یہ سوچتے ہوں کہ جس اپوزیشن لیڈر کی درخواست پر انہوں نے پانچ سال تک ان کے برادر محترم کو اہم منصوبوں پر تعینات کئے رکھا اب وہ حق خدمت ادا کرنے سے پہلو تہی نہیں برتے گا۔ اپوزیشن ارکان نے نگران وزیراعلیٰ کیلئے دو ناموں پر اتفاق کیا اولاً طارق کھوسہ اور ثانیاً شاہد کاردار‘ طارق کھوسہ سپریم کورٹ کے جج ‘ آصف سعید کھوسہ کے بھائی اور سابق اعلیٰ سرکاری افسر ہیں جبکہ شاہد کاردار معاشی امور کے ماہر ہیں۔ ان ناموں اور مشاورت کے حوالے سے رانا ثناء اللہ کے تازہ بیان کی اپوزیشن لیڈر نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کے ارکان نے اپنی مشاوت مکمل کر لی ہے لیکن ہماری طرف سے حکومت کو کوئی نام اسلئے نہیں دیا جا سکا کہ وزیراعلیٰ ملاقات سے گریزاں ہیں۔ اس ’’گریزاں‘‘ پر بھی اپوزیشن لیڈر نے کچھ کہا ہے وہ رہنے دیجئے۔

اصل قصہ یہ ہے کہ شریف خاندان کی حکمت عملی یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈر اور وزیراعلیٰ کی مشاورتی ملاقات حکومت کی رخصتی سے پانچ سات دن قبل ہو تاکہ مشاورت مکمل ہونے سے قبل حکومت کی آئینی مدت پوری ہو جائے اور پھر معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے۔ انتظامات اور دائو پیچ میں ماہر نون لیگ اپنے پتے الیکشن کمیشن میں شو کرے گی اسے یقین ہے کہ نگران وزیراعلیٰ وہ اپنا بندہ بنوانے میں کامیاب رہیں گے۔ ادھر اپوزیشن بھی سوچے ہوئے ہے کہ اگر وزیراعلیٰ نے مشاورت کے آئینی طریقے پر عمل نہ کیا تو عدالت کا رخ کیا جائے گا۔ دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ ہلکا پھلکا سچ یہ ہے کہ جناب شہباز شریف اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید سے ملنا نہیں چاہتے غالباً وہ تحریک انصاف کو مساوی سیاسی حیثیت دینے پر آمادہ نہیں۔
سندھ میں جہاں پیپلز پارٹی کی پچھلے دس برسوں سے حکومت ہے کتنی بہتری آئی اور کتنا وہ بگاڑ جس کا تذکرہ سیاپا فروش اٹھتے بیٹھتے کرتے ہیں ہمارا موضوع نہیں۔ موضوع اتوار کی سہ پہر کراچی میں ہوئی وہ قانون گردی ہے جس سے جمہوریت کے حامیوں اور قانون پسند شہریوں کے سر شرم سے جھک گئے۔ سندھ میں سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں اور پھر ان میں سے بعض کی جلی ہوئی لاشوں کے ملنے کا سلسلہ پچھلے کئی برس سے جاری ہے۔ ان برسوں کے دوران کچھ مغوی پیاروں کے درمیان لوٹ بھی آئے لیکن زیادہ تو ابھی لاپتہ ہیں عینی شاہدین کی شہادتوں کو کہیں بھی کوئی بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ گمشدہ افراد میں زیادہ تر قوم پرست ہیں اور قوم پرستوں میں سے بھی جسقم کے قریشی دھڑے کے لوگ ان میں کچھ ادیب‘ شاعر‘ سماج سدھار اور اساتذہ بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  نئی تاریخ کے چند نمونے

سادہ سا سوال یہ ہے کہ دس برسوں سے پیپلزپارٹی سندھ میں حکمران ہے۔ رینجرز کو اختیارات سندھ حکومت نے دے رکھے ہیں۔ گمشدگیوں اور لاشوں کے ملنے پر لواحقین کس کے دروازے پر احتجاج کریں؟ لاپتہ افراد کے حوالے سے اگر اداروں نے سندھ حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا تو پھر بھی ایک صوبائی حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ وفاق اور وفاقی اداروں سے دریافت کرے کہ اس کے صوبے سے سیاسی کارکنوں‘ ادیبوں‘ شاعروں‘ اساتذہ اور سماج سدھار کارکنوں کو کون اور کس لئے اٹھا رہا ہے۔ حکومت اگر سوال کرنے میں بھی بے بس ہے تو حکومت کا فائدہ۔ درست اقدام یہ ہوگا کہ وزیراعلیٰ سندھ اس مسئلہ پر متعلقہ اداروں سے بات کریں اور نوٹس لیں کہ اتوار کو گمشدہ افراد کے لواحقین کے کیمپ پر قانون گردی کس کے حکم پر ہوئی۔ کیا پیپلز پارٹی جیسی تجربہ کار جماعت یہ نہیں سمجھ پا رہی کہ گمشدہ افراد کا معاملہ سندھ میں اس کی انتخابی مہم پر اثرانداز ہوسکتا ہے؟۔

جناب نواز شریف نے ایک بار پھر کہا ہے کہ انتخابات میں دھرنا گروپ کا دھڑن تختہ کر دیں گے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اپنی جماعت کے مشاورتی اجلاس میں یہ تقریر انہوں نے اس ٹیلی فون کال سے قبل کی یا بعد میں جس میں کال کرنے والا انہیں بتا رہا تھا کہ آپ کی جماعت کی حکومت میں باقی گیارہ دن رہ گئے ہیں۔
ادھر تحریک انصاف نے بھی اتوار ہی کو اقتدار ملنے کے پہلے 100 دن کا پلان پیش کر دیا ہے۔ عمران خان کہتے ہیں طرز حکومت میں تبدیلی لائیں گے‘ قومی سلامتی کی ضمانت ہوگی۔ زرعی ایمرجنسی لگے گی‘ معیشت بحال کریں گے‘ نیب خود مختار ہوگا‘ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنا دیں گے‘ ہمارے پاس پانچ سال حکومت کرنے کا تجربہ ہے۔ 5 سال میں ایک کروڑ نئی ملازمتیں دیں گے‘ 50لاکھ گھر بنائیں گے۔ 2013ء میں نواز شریف کہتے تھے ہمارے پاس 30سال کا تجربہ ہے ان کے 30 سالہ تجربے نے 5سال میں لوگوں کی مت مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کیا عمران خان سیاسی مسافروں کے ہجوم کیساتھ محض پانچ سالہ تجربے کی بنیاد پر کوئی تبدیلی لا پائیں گے؟
فقیرراحموں کچھ کہہ رہے ہیں لکھ نہیں سکتا۔

یہ بھی پڑھئے:  کچھ واضح تضادات کی نشاندہی - اکرم شیخ

حالیہ بلاگ پوسٹس