ہمارے محبوب قائد کامریڈ نوازشریف ان دنوں ہرکس و ناکس کو شکوؤں کی دودھاری تلوار پر رکھتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ بہت ساری باتیں بھول جاتے ہیں۔یاداشت تو خیر سے قائد مکرم کی کبھی بھی اچھی نہیں رہی اور حالات حاضرہ کے حوالے سے ان کی دانش کے بہت سارے نمونے ان سطور میں پیش کرتا رہا ہوں۔ مروجہ نظام میں ہی یہ ممکن ہے کہ جن حضرت کو 1985ء میں یہ معلوم نہیں تھا کہ نومین لینڈ اور آئرلینڈو پولینڈ میں فرق کیا ہے وہ پاکستان کا تین مرتبہ وزیراعظم بنا اور تینوں بار کرنیوں کا پھل کھاتے ہوئے ایوان اقتدار سے نکالا گیا۔کامریڈ کی دلچسپیوں سے ایک زمانہ واقف ہے۔
خوش خوراکی، خوش لباسی، اچھا سنگیت سننا اور لطیفہ بازوں کو باجو میں رکھنے کی عادت دیرینہ ہے۔ کامریڈ لطیفے سُن کر خوش ہوتے ہیں۔ زیادہ خوش ہوں تو لطیفہ سنانے والے کو سفیر بنا دیتے ہیں۔ ’’نابغے‘‘ پالنے کا شوق بہت پرانا ہے۔ تختی و جھنڈے والی گڈی اور پروٹوکول پر قربان ہونے کو تیار رہتے ہیں۔ 1970ء کی دہائی کی معروف اپوزیشن جماعت تحریک استقلال نے یورپ کے جمہوری و حکومتی نظاموں کی طرح پاکستان میں بھی مرکز اور صوبوں میں شیڈو کابینائیں بنانے کا تجربہ کیا تھا اسی تجربے کی وجہ سے ہمارے محبوب کامریڈ تحریک استقلال کی شیڈو کابینہ برائے پنجاب میں وزیرخزانہ بنائے گئے۔ پھر انہوں نے اپنی گاڑی پر شیڈو وزیرخزانہ کی تختی بھی لگالی تھی۔
کامریڈ اپنی ذات میں پوری تاریخ ہیں ہر صفحہ پر ایک نئی کہانی اور واردات تحریر ہے۔ چلیں ماضی کے اوراق اُلٹنے کی بجائے کامریڈ کی تازہ پھلجڑیوں پر بات کرتے ہیں۔ دو دن ادھر فرمایا۔ موجودہ پارلیمینٹ میں کوئی دم خم ہی نہیں اب فیصلے اگلی پارلیمینٹ میں ہوں گے۔ یہ بھی ارشاد ہوا کہ ہمیں پتہ تھا کہ نیب مارشل لاء کا کالا قانون ہے غلطی ہوگئی اسے ختم نہ کیا۔ اقتدار ملا تو نیب کا کالا قانون ختم کردیں گے۔ ارے صاحب ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ابھی وفاق میں آپ کی حکومت ہے اور اس حکومت کے خاتمے میں ایک ماہ اور چند دن باقی ہیں وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کو حکم دیجئے آئینی ترمیم کا مسودہ لائیں اور قومی اسمبلی سے منظور کروالیں۔
سینیٹ میں کیا ہوگا اس پر سرکھپانے کی بجائے محنت کریں مشکلیں آسان ہو سکتی ہیں۔فقیر راحموں کہتے ہیں کہ نیب اور اس کا قانون دونوں کو اگر سزائے موت ایک آئینی ترمیم کے ذریعے دلوادی جائے اور حکومت کی رخصتی سے قبل ایک قانون کے ذریعے داماد اور کپتان (ر) صفدر کو تاحیات کمانڈر انچیف، طلال چودھری کو وزیرقانون، مشاہدحسین کو وزیراطلاعات اور خواجہ سعد رفیق کو چیف جسٹس آف پاکستان لگوالیں فیر موجاں ای موجاں۔ فقیر راھموں کا مشورہ بُرا نہیں ایک تجویز اور ہے وہ یہ کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان منتخب حکومتی عہدیداران، مختلف ریاستی اداروں کے بڑے ان سب کے لئے کرپشن کی ایک با عزت سالانہ حد اگر آئین میں مقرر کردی جائے تو یہ بھی مناسب ہوگا کم از کم اس مناسب سالانہ حد سے زیادہ کرپشن نہیں ہوگی۔
ہمارے محبوب کامریڈ نے چند دن قبل نیب سے کہا کہ وہ دیکھے کہ موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار کو کس نے سیکرٹری قانون اور پھر جج بنایا۔ عجیب بات یہ ہے کہ جناب نوازشریف بھول گئے کہ انہوں نے ہی اپنے دوسرے دور اقتدار میں پہلے ثاقب نثار کو وفاقی سیکرٹری قانون بنوایا اور پھر سال بھر بعد انہوں نے اس وقت کے صدر ابا جی اینڈ کمپنی کی فخریہ پیشکش جسٹس (ر)محمد رفیق تارڑ کو منظوری کے لئے بھجوائی گئی ججوں والی فہرست میں ان کا اسم گرامی شامل کیا راوی کے بقول جناب ثاقب نثار کا نام نوازشریف نے فہرست میں اپنے قلم سے تحریر فرمایا تھا۔ اب اگر نیب نے تحقیقات کیں تو یقیناًوہ تاریخی دستاویزات بھی منظر عام پر آئیں گی اور اگر ایسا ہوتو قومی اسمبلی ایک قانون کے ذریعے ان دستاویزات کو قومی عجائب گھر کی زینت بنوادے تا کہ سند رہے اور آئندہ نسلوں اور حکمرانوں کی رہنمائی کے کام آئے۔ فقیر کو معلوم ہے کہ نہ 9من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی یعنی نیب کبھی اس حوالے سے ہمارے کامریڈ کی خواہش پوری نہیں کرے گا۔
جناب نوازشریف اور ان کا خاندان اب بہر طور یہ اعتراف کرنے لگا ہے کہ لندن والے فلیٹس انہی برسوں میں خریدے گئے جن کا خریداری کی دستاویزات میں ذکر ہے البتہ وہ کہتے ہیں کہ یہ فلیٹس قومی خزانے سے نہیں خریدے گئے۔ وہ کہتے ہیں تو درست ہی کہتے ہوں گے۔ چند ماہ قبل ان کی فطین صاحبزادی مریم نواز یہ انکشاف کرچکی ہیں کہ ان کے دادا مرحوم 1930ء کی دہائی میں بڑے صنعت کار اور لاکھوں کا ٹیکس ادا کرتے تھے۔مریم کے اس انکشاف پر فروری 1991ء میں لاہور سے شائع ہونے والے ایک سیاسی جریدے میں لکھی گئی وہ کہانی بعنوان ’’تیسراپنجابی نہیں پہلا کشمیری وزیراعظم ‘‘یاد آگئی، اس کہانی (جو شریف خاندان کا خاندانی پروفائل تھا)میں میاں محمد رمضان(نوازشریف کے دادا محترم) کی 1930ء کی دہائی کے اوائل میں لاہور آمد اور پھر چند برس بعد میاں رمضان کے بڑے صاحبزادے میاں شریف کی امرتسر سے لاہور آمد کی تفصیلات بیان کی گئیں اور 1956ء میں وزارت محنت کو قرضوں کے لئے دی گئی دو درخواستوں کا بھی ذکر کیا گیا جو ایک اوسط درجہ کی بھٹی کو فونڈری میں تبدیل کرنے کے لئے حصول قرضہ کی بابت تھی۔ اس کہانی کی اشاعت کے بعد فقیر کے ساتھ آئی بی کا حُسن سلوک بھی یاد گار ہے۔ اور یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ اگر اس وقت محترمہ بے نظیر بھٹو میرے لئے سٹینڈ نہ کرتیں تو خدا جانے کیا انجام ہوتا محترمہ کے دبنگ سٹینڈ اور پی ایف یو جے کے احتجاج کی بدولت رہائی نصیب ہوئی۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جناب نوازشریف کی باتوں کو دل پہ لینے کی ضرورت نہیں وہ بادشاہ آدمی ہیں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn