Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

چراغ سب کے بجُھیں گے ہوا کسی کی نہیں

صلح کل کی شہر ت رکھنے والے صوفی سُنی بریلوی مسلک کے دوتین انتہاپسند چہروں نے پچھلے کچھ عرصہ سے جو’’اَت‘‘ اٹھا رکھی ہے اس پر کمرشل لبڑلز پروگرام چلانے والے مہربانوں کا دعویٰ ہے کہ یہ انتہا پسند بھی انہی کے لاڈلے ہیں جنہیں لشکر پالنے بڑھانے کا شوق چین نہیں لینے دیتا۔ لیکن کڑواسچ یہی ہے کہ پیر افضل قادری، آصف اشرف جلالی اور خادم حسین رِضوی ہر تین حضرات نون لیگ کے قدیم نگینے ہیں۔ اپنے متنازعہ خیالات و نظریات کی وجہ سے صوفی سُنی رائے عامہ اور اہل دین کی اکثریت نے ان کی سرگرمیوں سے کبھی اتفاق نہیں کیا۔ چند بزرگ (جیسا کے مفتی منیب الرحمن) ان کی حمایت سیاسی مقاصد کے لئے کرتے ہیں۔ کبھی یہ چار کا ٹولہ کہلاتا تھا راولپنڈی کے حنیف قریشی بھی ان کے ہمقدم تھے لیکن ممتازقادری والے مسئلہ میں وہ ایک بیان حلفی کی ’’مار‘‘ ثابت ہوئے۔ اولین مرحلہ وہ تھا جب شریف خاندان نے سلمان تاثیر(اس وقت وہ پنجاب کے گورنر تھے) سے ذاتی دشمنی نکالنے کے لئے رانا ثناء اللہ کی معرفت چار کے اس ٹولے کی خدمات حاصل کیں رانا ثناء اللہ، چار کا ٹولہ اور چند ٹی وی اینکرز ہی بنیادی طور پر سلمان تاثیر کے سفاکانہ قتل کے ذمہ دار تھے کیونکہ ان لوگوں کی غیر محتاط جذباتی الزام تراشی اس شخص کی جان لے گئی جس نے صرف یہ کہا تھا کہ قوانین کے اطلاق میں انتہائی احتیاط لازم ہے اور یہ کہ جنرل ضیاء کے بعض قوانین نے ایک طبقہ کے ہاتھوں میں دودھاری تلوار تھمادی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جس نون لیگ نے صوفی سُنی بریلوی مسلک کے گلستان میں انتہا پسندی کو پروان چڑھایا اب پچھلے کچھ عرصہ سے وہ اپنا ایمان اور عشق رسولؐ ثابت کرتی پھر رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فیض آباد دھرنے اور لانگ مارچ کی اصل منصوبہ ساز مسلم لیگ(ن) پنجاب کی حکومت تھی مقصد یہ تھا کہ بعض لوگوں کے مذہبی عقائد کو متنازعہ بنا کر ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ نوازشریف کے خلاف مقدمات کا معاملہ پس منظر میں چلا جائے۔ مولوی خادم گروپ کی لانگ مارچ پر روانگی سے قبل کی شب راناثناء اللہ اور زعیم قادری نے ان سے ملاقات کی اور پھر جہلم میں بھی رانا ثناء اللہ اور مولوی خادم کی ملاقات ہوئی فریقین ان ملاقاتوں کی تردید کرے ہوئے بدزبانی فرماتے رہے لیکن پھر فیض آباد دھرنے کے اختتام کے چند دن بعد ان ملاقاتوں کا اعتراف کرلیا گیا۔کہا گیا یہ ملاقاتیں خالصتاً انتظامی امور اور امن وامان کے حوالے سے تھیں۔

یہ بھی پڑھئے:  اپریل فول کی حقیقت

تمہید طویل ہوگئی فی الوقت صورت یہ ہے کہ مولوی خادم گروپ 2اپریل سے پنجاب حکومت کی مشاورت و رضا مندی کے ساتھ داتا دربار پر دھرنا دیئے ہوئے ہے بظاہر یہ دھرنا دھرنے میں ہوئے معاہدے پر عمل درآمد کے لئے ہے مگر حقیقت میں یہ دھرنا گرفتاریوں سے بچنے کے لئے ہے۔’’عاشقانِ رسولؐ ‘‘ بلند و بانگ دعوؤں اور جان قربان کرنے کی بڑھکوں کو گلے پڑتا دیکھ کر اس بات پر احتجاج فرمارہے ہیں کہ بلوے، تشدد اور دوسرے جرائم میں درج مقدمات میں ان کے وارنٹ گرفتاری کیوں نکالے گئے۔اسی طرح خادم گروپ کے حریف بلکہ یوں کہیں کہ تحریک لبیک یا رسول اللہ کا بانی گروپ آصف اشرف جلالی بھی میدان میں ہے وہ بھی اپنے اسلام آباد دھرنے کے معاہدے پر عمل چاہتے ہیں اور مطالبہ کررہے ہیں کہ حکومت معاہدے کے مطابق قومی کونسل برائے ختم نبوتؐ کے قیام کانوٹیفکیشن جاری کرئے۔ دونوں گروپ مذہبی اقلیتوں بارے جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ آب زم زم میں دھلی ہوئی ہے لیکن ایک دوسرے کے بارے میں استعمال کی جانے والی زبانوں نے تو بیسواؤں کو مات دے دی ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ کیا ریاست اتنی بے بس ہے کہ ایک مولوی چند درجن لٹھ باز لئے دو اپریل سے داتا دربار جیسی مصروف ترین جگہ پر مورچہ لگائے بیٹھا ہے؟۔ اس سوال کا جواب تو خادم گروپ کو یہاں (دھرنے والی جگہ پر)لابٹھانے والوں کے پاس ہے۔ اطلاع یہ ہے کہ پنجاب حکومت میں موجود ہارڈ لائنر بدلہ چکاؤ پروگرام پر عمل کررہے ہیں۔یعنی اگر عدالتی فیصلہ نوازشریف کے خلاف آئے گا تو ریاست کے چند بڑوں کے مذہبی عقائد پر سوالات اٹھا کر لوگوں کو گمراہ کیا جائے گا تا کہ بے قابو انارکی بدلے کی بھاونا کو سیراب کرے۔
عجیب بات یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے دھرنا ختم کروانے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی پچھلے 10دنوں سے داتا دربار اور ملحقہ علاقوں میں جو صورتحال ہے اس پر نرم سے نرم الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’لاہور کا دل‘‘ چند درجن لٹھ بازوں کے قبضہ میں ہے۔ چند دن قبل رانا ثناء اللہ وغیرہ نے دھرنا گروپ سے مذاکرات کئے اور کہا حکومت اپنا جواب 12اپریل کو دے گی۔ مولوی خادم نے اعلان کیا کہ وہ بھی حکومت کے جواب پر 12اپریل کو ہی اپنا فیصلہ سنائیں گے۔

ایک ایسی ریاست جسے ان گنت داخلی و خارجی مسائل کا سامنا ہے معاشی بدحالی قرضوں کا انبار بیروزگاروں کے لشکر آسمان کو چھوتی مہنگائی ایسے میں دھرنا دھرنا کھیلنے کا سرکاری سرپرستی میں چلنا پروگرام آخر ہو کیا رہا ہے۔ کیا شریف فیملی کھلیں گے نہیں تو کھیلنے بھی نہیں دیں گے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے؟۔بظاہر ایسا ہی لگتا ہے لیکن جس بات پر تشویش ہے وہ یہ ہے کہ کیا اب دیگر مذہبی گروپوں اور برادریوں کی قسمت کے فیصلے سڑکوں پر ہوا کریں گے؟۔ایسا ہے تو پھر یہ ایک آسان راستہ ہے مخالف مذہب و مکتب کی سرکوبی کا جس کا جی چاہے گا وہ لٹھ بردار سڑکوں پر لائے گا اور حکومت کو گُھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے گا۔ یہ روش اور اس کی حوصلہ افزائی اچھی بات نہیں۔چراغ سبھی کے بجُھ کر رہیں گے کیونکہ ہوا کسی کی نہیں ہوتی۔

یہ بھی پڑھئے:  عمران خان کو ایک یوٹرن لینا ہوگا

اصولی طور پر تو قانون کی حاکمیت بہت ضروری ہے ثانیاًیہ کہ دستور میں دئیے گئے سیاسی، معاشی اور مذہبی حقوق کی فراہمی اور ان کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے بدقسمتی یہ ہے کہ جس کی ذمہ داری ہے وہی(یعنی حکومت) گھناؤنا کھیل کھیل رہی ہے۔ پنجاب حکومت پہلے ہی نصابی کمیٹی میں فرقہ پرست مولویوں کو شامل کرکے ظلم کرچکی ہے اب بھی اگر وہ اپنے مقاصد کے لئے غیر ضروری اقدامات کرتی ہے تو بگاڑ پیدا ہوگا۔ یہ ملک اس میں مقیم 22کروڑ لوگوں کا بلاامتیاز وطن ہے مذہب و عقیدے کے نام پر کسی ایک طبقے کو اپنے ہی وطن میں اجنبی بنانے کی سازشیں قابل نفرت ہیں مگر اس کا کیا کیا جائے کہ اس نفرت بھرے منصوبے کی خالق نون لیگ پنجاب اور دواہم صوبائی وزراء ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ وزراء شہبازشریف کی مرضی کے بغیر یہ سب کچھ کررہے ہوں؟۔سوال اور بھی ہیں مگر فی الوقت انہی پر اکتفا کیجئے اور دستِ دعا بلند بھی کہ ایسے حالات پیدا نہ ہوں کہ ہر گلی میں عقیدوں کی عدالتیں مخالف عقیدوں والے لوگوں کو سزائیں سنارہی ہوں۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں

حالیہ بلاگ پوسٹس