Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

شہید بے نظیر بھٹو بنام نواز شریف

امید ہےکہ آپ اپنی پارٹی کی حکومت کے ہوتے ہوئے اپوزیشن کا کردار ادا کرنے اور پیشیاں بھگتتے ہوئے یہ ضرور یاد کرتے ہوں گے کہ میثاق جمہوریت کو روندتے ہوئے کیانی، پاشا اور افتخار چودھری کی تگڑم کا ساتھ دے کر اچھا نہیں کیا تھا۔ یاد کیجئے کہ میثاق جمہوریت پر مذاکرات کے دنوں میں ، میں نے آپ سے کہا تھا کہ اگر مستقبل میں کبھی آپ نے سیاسی جماعتوں کی بجائے اداروں کی جانب دیکھا اور ان کی خواہشات کی تکمیل کو واجب سمجھا تو ایک دن آئے گا جب یہی ادارے آپ پر سیاسی تنہائی مسلط کر دیں گے۔ افسوس آپ نے وہی کیا جسے اپنی سیاست اور اقتدار کے لئے فائدہ مند سمجھا۔

میاں صاحب! ابھی تو آپ کی مرکز اور پنجاب میں حکومت ہے۔ سگا بھائی پنجاب کا وزیراعلیٰ ہے پھر بھی آپ اس کے باوجود انتقام انتقام کی صدائیں لگا رہے ہیں کہ پورے شاہانہ پروٹوکول کے ساتھ پیشیاں بھگتتے ہیں۔ یاد کیجئے ان دنوں کو جب آپ کی حکومت تھی اور مجھے ایک ہی دن میں راولپنڈی اور کراچی کی عدالتوں میں پیشی کے لئے دھکے کھانا پڑتے تھے۔ کبھی معصوم بچوں کی انگلیاں تھامے جیل کے باہر گھنٹوں اپنے شوہر سے ملاقات کے لئے انتظار کرنا پڑتا تھا۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے جب آپ اپنے ہی بحال کروائے گئے ججوں کو پی سی او جج کہتے ہوئے طعنہ بازی کرتے ہیں۔ میثاق جمہوریت میں پی سی او ججز بارے طے ہوا تھا اس سے انحراف کس نے کیا؟

میاں صاحب! ویسے کیا ضرورت تھی کالا کوٹ پہن کر میمو گیٹ میں سپریم کورٹ جانے کی؟ آج کل آپ پیپلز پارٹی پر بڑے برہم ہیں مگر جب اسی جماعت نے انصاف کی فراہمی کو بہتر بنانے کے ساتھ احتساب کے دائرے میں تمام اداروں کو لانے کے لئے قانون سازی کے لئے مدد چاہی تو آپ نے ان تجاویز کو حقارت کے ساتھ مسترد کر دیا۔ کم از کم یہ تو تسلیم کیجئے کہ جو زبان آپ اور کے ساتھی میرے اور میری جماعت کے خلاف استعمال کرتے رہے پیپلز پارٹی نے وہ زبان آپ کے خلاف استعمال نہیں کی۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جدہ میں ہوئی ملاقات کے دوران آپ اور آپ کے والد نے مجھے کیا کہا تھا۔ میں نے اس وقت بھی عرض کیا تھا کہ سیاستدان جب تک ایجنسیوں کے کہنے پر ایک دوسرے کی کردار کشی کرتے رہیں گے حالات میں بدلاؤ نہیں آئے گا۔ مجھے یاد ہے آپ نے اس ملاقات میں کہا تھا سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہی ایجنسیوں کے سیاسی کردار کو روک سکتا ہے۔ مگر افسوس جونہی آپ پاکستان پہنچے تو کیانی و پاشا کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹ کو دیوار سے لگانے میں مصروف ہوگئے۔

یہ بھی پڑھئے:  پھر ہم ہی قتل ہو آئیں یارو چلو

بہت افسوس اور دکھ کا لمحہ وہ تھا جب آپ نے آصف زرداری سے طے شدہ ملاقات منسوخ کر کے ماسکو کے دورے پر گئے ہوئے آرمی چیف کو فون کر کرے ملاقات منسوخ کرنے کی اطلاع دی۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی نے پلٹ کر آپ کو طعنہ نہیں دیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اداروں کی طاقت کے مقابلے میں آپ سیاسی اور فکری طور پر کمزور ہیں۔ آج بھی آپ ایک ہی وقت میں دو باتیں کر رہے ہیں۔ اولاََ یہ ہے کہ سیاسی قوتوں کے درمیان نئے میثاق جمہوریت کی ضرورت ہے اور دوسرے سانس میں آپ کہتے ہیں کہ "میں تمام اداروں سے مذاکرات کرنے کے لئے تیار ہوں” میاں صاحب آئین میں اداروں سے مذاکرات کہیں نہیں لکھے بلکہ ان اداروں کا دائرہ کار طے ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ آپ نے پارلیمان کو مضبوط کیوں نہ کیا کہ کوئی ادارہ طے شدہ حد سے تجاوز نہ کرتا؟

محترم میاں صاحب! آج بھی آپ جس اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بلند و بانگ دعوے کر رہے ہیں اسی اسٹیبلشمنٹ سے آپ کے بھائی اور چند ساتھی ایک سابق جرنیل کی مدد سے مذاکرات میں مصروف ہیں۔ کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ ان مذاکرات کا مقصد کیا ہے؟ افسوس یہ ہے کہ ان ابتر حالات میں بھی آپ کے قول و عمل کا تضاد برقرار ہے۔ عوام میں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ اور درپردہ این آر او کے لئے کوششیں۔ میاں صاحب! سیاسی عمل کی بنیادی ضرورتوں کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ آپ سیاسی استحکام پر توجہ دیں تصادم کی سیاست سے زیادہ مناسب لوگوں کو منظم کرنا اور سیاسی ماحول کو برقرار رکھنا ہے۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کی کسی بات یا عمل سے فائدہ اٹھا کر کوئی طاقت جمہوری عمل اور انتخابات پر شب خون نہ مارے اور یہ اسی طور ممکن ہے جب آپ سیاسی حقائق کو کھلے دل سے تسلیم کریں گے۔

یہ بھی پڑھئے:  تین باتیں

والسلام
آپ کی بہن
بے نظیر بھٹو

 

حالیہ بلاگ پوسٹس