Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

داعش کا خطرہ اور چین کا انتباہ

اسلام آباد میں اے پی این ایس کے زیرِ اہتمام ایک تقریب سےخطاب کرتے ہوئے چینی ماہرین کا کہنا تھا کہ "افغانستان میں داعش کے جنگجوؤں کا اکٹھا ہونا پورے خطے کے لئے خطرہ ہے۔ چین ، پاکستان اور افغانستان کو اس خطرے سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی وضع کرنا ہوگی”۔ اسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ازبکستان اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے کہا کہ سی پیک کے ثمرات کو عام آدمی تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے قائم نہ ہونے دیے جائیں۔

چند دن قبل داعش کے بڑھتے ہوئے خطرے اور افغانستان میں اس کے محفوظ مراکز بارے تفصیل سے عرض کرتے ہوئے بھی اس امر کی نشاندہی کی تھی کہ داعش کے منظم ہونے سے فقط پاکستان اور افغانستان ہی متاثرہ فریق نہیں ہوں گے بلکہ وسط ایشیائی مسلم ریاستوں کے ساتھ مستقبل میں چین کے لئے بھی مسائل پیدا ہوں گے۔ سی پیک پر اپنی بھاری بھرکم سرمایہ کاری کے بعد یقیناََ چین کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چینی حکام نے تین ماہ کے دوران کم از کم پانچ بار پاکستان اور افغان حکومتوں سے اس سلسلے میں بات کی۔ چینیوں کی خواہش ہے کہ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ سی پیک روٹ اور اس کے منصوبے دہشت گردوں سے محفوظ ہوں۔ کیا ہم اسے بدقسمتی کہیں کہ عین اس وقت جب پاکستان چین کو یہ یقین دہانی کروا رہا تھا کہ اپنے ملک کی جغرافیائی حدود میں دہشت گردی کی کمر توڑ دی گئی ہے کوئٹہ میں زرغون روڈ کے گرجا گھر پر دہشت گردوں کے خودکش حملے میں 9 افراد جاں بحق اور 60 سے زیادہ زخمی ہوگئے۔

ان سطور مین اس امر پر بحث نہیں اٹھاتے کہ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد واقعتاََ 9 تھی یا یہ کہ خود کش حملہ گرجا گھر کے صحن میں ہوا یا مرکزی ہال کے داخلی دروازے کی اندرونی سمت میں ۔ مختصراََ یہ کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس اور سیکورٹی حکام کا مؤقف عینی شاہدین کے بیانات سے مختلف ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ جب خودکش حملہ آور مرکزی ہال کے داخلی دروازے کی اندرونی سمت میں ہوا تو یہ کیوں کہا جا رہا ہے کہ خودکش بمبار دعائیہ ہال تک نہیں پہنچ پائے تھے؟

یہ بھی پڑھئے:  ہر سو گُھپ گھور اندھیرا ہے - حیدر جاوید سید

بہر طور یہ امر مدنظر رکھنا ہوگا کہ نہ صرف کوئٹہ چرچ حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے بلکہ ایسے مزید اہداف کے حصول کا دعویٰ بھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی حکام کو داعش کےمنظم ہونے اور مستقبل میں پاکستان کے لئے خطرہ بننے کا ادراک ہے؟ پھر یہ بھی کہ جس خطرے کی نشاندہی چینی حکام کر رہے ہیں اس کے سدباب کے لئے کیا حکمت عملی وضع کی گئی ہے؟ کیا حالیہ دنوں میں افغانستان سے اس موضوع پر کوئی بات ہوئی؟ اس سے اہم سوال یہ ہے کہ ایک دو نہیں بہت سارے تجزئیہ نگار بلکہ سابق افغان صدر حامد کرزئی یہ کہہ رہے ہیں کہ داعش کو افغانستان میں امریکی خود منظم کر رہے ہیں تو کیا اس حوالے سے کسی نے امریکی حکام سے بھی بات کی؟

زمینی حقائق سے منہ موڑ کر سب اچھا کی تکرار غیر ضروری ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ داعش کے جنگجو بھی ہماری سلامتی کے اتنے ہی دشمن ہیں جتنے طالبان، لشکرِ جھنگوی، جند اللہ وغیرہ۔ معاملہ صرف سی پیک روٹ اور اس کے مختلف منصوبوں کو دہشت گردوں کی رسائی سے دور رکھنے کا نہیں ۔ یہ ضرور ایک معاملہ ہے مگر اصل چیز یہ ے کہ ہمیں ایک مربوط پالیسی بنانا ہوگی۔ ایسی پالیسی جو کم از کم نیشنل ایکشن پلان کا چائلڈ بے بی ہرگز نہ ہو۔ ایک حقیقی دیرپا اور امیدوں بھری پالیسی وضع کر کے ہی مسقتبل کے خطرات سے محفوظ ہوا جا سکتا ہے۔ سی پیک کے حوالے سے اندرونی طور پر موجود شکایات و تحفظات کے ہوتے ہوئے اگر دہشت گردوں اور خصوصاََ داعش کو کھل کھیلنے کا موقع ملا تو خطرات بڑھ جائیں گے۔

یہ بھی پڑھئے:  چین المونیم کی قیمت گھٹا کر امریکہ کو نقصان پہنچا رہا ہے

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی تاخیر کے بغیر اس حوالے سے افغانستان حکومت سے بات کی جائے، چین اس ضمن میں جس تعاون کا عندیہ دے رہا ہے اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے قائدین کو سمجھنا ہو گا کہ داعشی جنگجو کسی کے سگے نہیں۔ سو یہ وہ نکتہ ہے ک جو اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ سی پیک کے حوالے سے امریکی جو کامیابی سفارتی محاذ پر حاصل نہیں کر پائے وہ داعش کے ذریعے حاصل کرنا چاہتے ہوں؟ اس اہم ترین سوال اور خطرے کو نظر انداز کرنے کی بجائے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب داعش کے فکری ہم خیالوں کو پنپنے کا موقع نہ دیا جائے

 

حالیہ بلاگ پوسٹس