پچھلی ساڑھے تین دہائیوں کی پاکستانی سیاست کے جس المیے کو نظر انداز کیا جا رہا ہے وہ سماج میں ابھرنے والے مختلف مذہبی (زیادہ بہتر ہو گا کہ ہم انہیں مسلکی گروہ کہیں) گروہوں کا شدت پسندانہ طرزِ عمل ہے۔ ہمیں ایک طرف تو شکایت اس ملک میں جمہوریت سیاپے میں مصروف سیاسی جماعتوں سے ہے ۔ ان جماعتوں نے بوقتِ ضرورت شدت پسندوں سے تعاون لیا۔ ان سے سیاسی اتحاد بنائے اور انہیں حکومتوں میں حصہ دیا۔ چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ کمرشل لبڑلز کے باوا آدم جرنل پرویز مشرف کو بھی اپنے نامزد وزیراعظم میرجبل خان ظفر اللہ جمالی کو اعتماد کا ووٹ دلوانے کے لئے سپاہ صحابہ کے اعظم طارق کا ووٹ لینا پڑا۔ طالبان، لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ سے ن لیگ کے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ موجودہ وفاقی ٹیکس محتسب سابق آئی جی پولیس پنجاب مشتاق سکھیرا پر شریف خاندان بلاوجہ ہی مہربان نہیں ہے۔ یہی وہ حضرت ہیں جنہوں نے 2013ء کے انتخابات سے قبل ن لیگ اور لشکر جھنگوی میں معاملات طے کروائے تھے۔یہاں معاملہ فقط پرویز مشرف اور اس کے جمع کردہ بھان متی کے کنبے ق لیگ کا نہیں، شدت پسندتنظیموں سے تعاون کی خیرات لینے اور ان کی سرپرستی کرنے والوں میں ریاست، مختلف ادوار کی حکومتیں اور مختلف الخیال سیاسی جماعتیں سبھی شامل ہیں۔
مثلاََ ن لیگ اور لشکر جھنگوی و سپاہ صحابہ کے درمیان ایک ایڈیشنل آئی جی (یہ صاحب بعد میں پنجاب پولیس کے آئی جی بنائے گئے ، تین سال اس منصب پر فائز رہے اور آج کل حق خدمت کے منافع میں وفاقی ٹیکس محتسب ہیں) مشتاق سکھیرا نے 2012ء میں باہمی تعاون کا معاہدہ کروایا۔ یہ انتخابی تعاون کا معاہدہ تھا۔ ورنہ اس نون لیگ کے رانا ثناء اللہ کے چچا زاد بھائی افتخار محمد چوہدری جب چیف جسٹس آف پاکستان تھے انہوں نے 100 شیعہ مسلمانوں کے قاتل ملک اسحاق کی ضمانت کیوں لی تھی۔ یہ ضمانت اس کے باوجود لی گئی کہ ملک اسحاق کا ایک کتابچہ "انتقامِ حق” بھی چیف جسٹس کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس کتابچے میں ملک اسحاق نے شیعہ مسلمانوں کے واجب القتل ہونے کے بارے میں اپنے اسلامی عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے یہ عزم بھی ظاہر کیا تھا کہ "قدرت نے موقع دیا تو صحابہ کرام کی خوشنودی کے لئے مزیدشیعوں کو قتل کروں گا”۔
پیپلز پارٹی، اے این پی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور لشکر جھنگوی کے "نرم چہرے” جمعیت علمائے اسلام (ف) نے دو سال قبل سندھ میں منعقد ہونے والے بلدیاتی اداروں کے انتخابات کے دوران لشکرِ جھنگوی کے ایک اور سیاسی چہرے راہِ حق پارٹی سے پورے صوبے میں اپنی اپنی ضرورت کے مقام پر انتخابی اتحاد بنائے۔ ان دنوں جب اس پر بہت شور ہوا تو اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی اور پی پی پی کےسربراہ بلال بھٹو نے اس اتحاد کا نوٹس لیتے ہوئے مقامی تنظیموں سے جواب طلب کیا۔ پی پی پی ایک بار جب 1993-96میں پنجاب میں حامد ناصر چٹھہ کی جونیجو لیگ کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل تھی تو تب بھی سردار عارف نکئی اور میاں منظور وٹو نے سپاہ صحابہ سے مذاکرات کر کے شیخ حاکم علی کو پنجاب کی کابینہ میں شامل کیا تھا۔ جناب عمران خان کو تو طالبان نے حکومت سے مذاکرات کے لئے سمیع الحق کے ساتھ اپنا نمائندہ بھی قرار دیا تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب عمران خان کہتے تھے کہ طالبان کا دفتر بنانے کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ مذاکرات میں باقاعدگی آئے۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت پر کراچی اور سندھ میں لشکر جھنگوی کے سابق کمانڈر اور اب سپاہ صحابہ کے صدر اورنگ زیب فاروقی کے معاملات میں چشم پوشی کا الزام تواتر کے ساتھ عائد ہو رہا ہے۔ فاروقی کو باقاعدہ پولیس اور رینجرز کی سیکورٹی حاصل ہے۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستانی سماج میں فرقہ ورانہ انتہا پسندی کی کاشت کا سہرا جنرل ضیاء الحق کے سر ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے اس حصے میں جب وہ صدر پاکستان تھے انجمن سپاہ صحابہ کی ریاستی سطح پر سرپرستی کی۔ البتہ اگر ہم سیاست میں مذہب کی دراندازی کو اپنی ستر سالہ تاریخ میں تلاش کرنے کی کوشش کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ اس نیک کام کی سعادت بھی پاکستان مسلم لیگ کو ہی حاصل ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا جب وزیراعظم لیاقت علی خان نے ملاؤں کے ذریعے قرارداد مقاصد منظور کروائی۔ ہمارے لیے اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستانی ریاست ہو یا کوئی سول و فوجی حکومت، مذہبی انتہا پسندی کا ہتھیار سبھی نے استعمال کیا۔ مثلاََ سلمان تاثیر سے بدلے کی آگ میں جلتے شریف خاندان نے ان کے خلاف نہ صرف اپنی جماعت کی سطح پر شرمناک مہم چلائی بلکہ مولویں کے ایک طبقے کو بھی استعمال کیا۔ ہماری ریاست نے مختلف اوقات میں مسلح لشکر بنوائے اور ان کی سرپرستی کی۔ یہ الگ بات ہے کہ پھر ایک ایک کر کے سارے لشکر ریاست کے ساتھ معصوم شہریوں کے گلے بھی پڑے۔
المیہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں دوغلے پن کا شکار ہیں۔ اگر ہم ٹھنڈے دل سے حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی نئی قسم کی شدت پسندی کے پس پردہ معاملات کا جائزہ لیں تو بہت سارے شریفوں کا گھناؤنا کردار بے نقاب ہوجائے گا۔ ستم یہ ہے کہ سیاست برائے اقتدار کے کھیل کے کھلاڑی ہوں یا ریاست ، کسی کو اس بات کا احساس نہیں کہ ایک برانڈ کی شدت پسندی تقریباََ 80 ہزار انسانوں کو کھاگئی ہے تو اگر اس نئی قسم کی شدت پسندی کو بھی سماج کے اجتماعی مفاد میں نہ روکا گیا تو ایسی ابتری جنم لے گی کہ جس کا علاج تلاش کرنا مشکل ہو جائے گا۔ بنیادی طور پر یہ وہ حالات ہیں جو یہ عرض کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کو اپنی اداؤں پر غور کرنا ہوگا۔ محض غور نہیں بلکہ ہمارئے آج اور ہمارےبچوں کے کل کے لئے ہمہ قسم کی شدت پسندی کی سرپرستی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ بہتر اور زیادہ سادہ الفاظ میں یہ کہ سیاسی جماعتوں کو اعلان کرنا چاہیے کہ وہ سیاسی عمل کے کسی بھی مرحلے پر شدت پسند تنظیموں سے کسی قسم کا تعاون حاصل نہیں کریں گی بلکہ سیاسی جماعتیں متحد ہو کر ریاست پر بھی دباؤ ڈالیں کہ پسند و ناپسند کی فلاپ فلم پر وقت اور وسائل برباد کرنے کی بجائے شدت پسندوں اور سہولت کاروں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ شدت پسندی کی وجہ سے جس طرح کی گھٹن بڑھ رہی ہے اس کا تدارک نہ ہوا تو وہ دن دور نہیں جب ہر گلی کی نکر پر ایک شدت پسند اپنی عدالت لگا کر بیٹھا ہو گا۔ خام بدہن ایسا ہوا تو کیا ہوگا اس پر لمبی چوڑی بحث کی ضرورت ہے نہ مغز کھپانے کی، نتیجہ صاف سامنے دیوار پر لکھا ہے ، بس پڑھنے والی آنکھ چاہیے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn