Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

سندھ کی سیاست میں آئی گرما گرمی

سندھ پر مستقبل کی حکمرانی کا خواب دیکھتے سندھ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے سربراہ پیر صبغت اللہ شاہ پگارا اور انکے 18 رتنوں نے اتوار کو سکھر میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کے دوران ارشاد فرمایا” پیپلز پارٹی اور زرداری کو اب سندھ پر حکومت نہیں کرنے دینگے۔ عوام کی نظریں عدلیہ پر لگی ہیں۔ سرکاری نوکریاں بیچی جا رہی ہیں، سندھ تباہ ہو چکا، زرداری بتائیں کہ بینظیر بھٹو کے قاتل کون ہیں”؟ سبحان اللہ تو بنتا ہے کہ سندھ کی سیاست میں بھٹو خاندان کے خون کے ازلی پیاسے بھی مجبور ہوئے کہ شہید رانی کے قاتلوں کا پتہ ٹھکانہ دریافت کریں۔ اچھا اگر انہیں پتہ چل جائے تو کیا کریں گے؟ فقیر راحموں کہتے ہیں قاتل کے گلے میں ہار ڈالیں گے جیسے بھٹو کے قاتل کے گلے میں ہار ڈالے تھے۔

موجودہ پیر پگارا کو یاد تو ہوگا کہ مرحوم پیر پگاڑا 1988ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے پرویز علی شاہ سے کتنے ووٹوں سے گھریلو نشست پر ہار گئے تھے؟ سیاست میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے، یہ طعنہ ہرگز نہیں، میاں نواز شریف 1988ء میں ملتان سے سید یوسف رضا گیلانی سے ہارے تھے اور سانگلہ ہل ضلع شیخوپورہ سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر پیپلز پارٹی کے ایک عام کارکن سید عبدالطیف شاہ سے شکست کھا گئے تھے۔ خود بھٹو صاحب 1970ء کے انتخابات میں ڈیرہ اسماعیل خان سے مولانا مفتی محمود سے ہارے، ہاں اگر الیکشن سے کچھ قبل حق نواز خان گنڈا پور قتل نہ کر دئیے جاتے تو نتیجہ مختلف ہوتا۔ خیر اس ذکر کو ایک طرف رکھئے ہم ایس جی اے کے اتوار کو سکھر میں منعقدہ جلسہ بارے کچھ باتیں کرتے ہیں۔ اٹھارہ جماعتیں مل کر مشکل سے 20 یا پچیس چلیں ان کے دعویٰ کے مطابق ایک لاکھ لوگ اکٹھا کر پائیں یہ سندھ بھر کے قافلوں کا اجتماع تھا۔ زیادہ تر لوگ پیر پگاڑا کی زیارت کے لئے آئے تھے۔ 1977ء سے آج تک یعنی 2013 کے پچھلے انتخابات تک سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف بننے والے اتحادوں کی قیادت تقریباً پگاڑا خاندان کے پاس رہی۔ ابھی پچھلے الیکشن میں پی پی پی کا صفایا کرنے کے نعرے مارتے جی ڈی اے نے جو اب ایس جی ڈی اے کہلاتا ہے بہت سارے سیاسی جنازے پڑھوانے کا اعلان کیا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ جی ڈی اے کی ارتھی کو کاندھا دینے والا بھی دستیاب نہ ہوا۔

یہ بھی پڑھئے:  اور وہ کتاب دیکھے!

سندھ میں پچھلے ساڑھے 9 سال سے پیپلز پارٹی مسلسل حکومت میں ہے، لاریب سب اچھا نہیں ہے مگر سب برا بھی نہیں، یہ اور بات کہ پنجابی میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلوں کی فقط وہی آنکھیں کام کرتی ہیں جو منفی دیکھتی اور منفی دکھاتی ہیں۔ ایس جی ڈی اے میں کچھ سندھی قوم پرست بھی شامل ہیں۔ عام طور پر یہ وڈیرا شاہی، پیر گردی اور استحصال کے مخالف ہونے کا ناٹک کرتے ہیں مگر پیپلز پارٹی کیخلاف اپنی قوتوں کے سیاسی اتحادی ہوتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو ایک خاندان کی جاگیر قرار دینے والے قوم پرستوں اور خود پگارا میں بھی یہ حوصلہ نہیں کہ وہ اپنی اپنی جماعتوں کی قیادت کسی کارکن کے حوالے کریں۔ موجودہ پیر پگارا اپنے والد کی جگہ بی ایم ایل این کے سربراہ بنے اور قوم پرست ایاز لطیف پلیجو اپنے والد کی پارٹی کے مالک۔ سندھ سماج کا ووٹر سوچتا ہے کہ آخر ان اتحادیوں کو صرف بھٹو دشمنی میں ووٹ کیوں دیں۔ یہ سوال کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔ مرحوم پیر پگارا بھٹو کی پھانسی کے حامی تھے اور ڈٹ کر 11 برس تک جنرل ضیاء کیساتھ کھڑے رہے۔ 2013ء کے انتخابات کی مہم کے دوران ان رہنماؤں کی تقاریر نکلوا کر پڑھ لیجئے۔ سینے پر ہاتھ مار کر کہتے تھے اسٹیبلشمنٹ ہمارے ساتھ ہے۔ ہم زرداری کو دفن کرنے آئے ہیں۔ اب بھی وہی لب ولہجہ اور خیالات ہیں۔ پیپلزپارٹی فرشتوں کی جماعت ہرگز نہیں اس کے موجودہ مالکان اور رہنماؤں کا خمیر اسی دھرتی اور سماج سے اٹھا ہے لیکن خود ایس جی ڈی اے کی پہلے کتنی نیک نامی ہے؟ پچھلے الیکشن میں تو نون لیگ جماعت اسلامی اور جے یو آئی (ف) تک ان کے ساتھ تھی۔ مشرف کی اے پی ایم ایل بھی پھر نتیجہ کیا تھا، پھر یہ سوال اہم ہے کہ یہ انتخابات کے موسم میں ہی گھروں سے کیوں نکلتے ہیں ہمہ وقت کی سرگرم سیاست سے دور کیوں رہتے ہیں؟۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے قدم قدم پر اتحادیوں کی سیاست کا کریا کرم کیا۔ یہ سنجیدہ لوگ ہوتے تو ہمہ وقت کی متحرک سیاست کرتے پیپلز پارٹی کی قدم قدم پر گرفت بھی۔ بہت ادب سے، کیوں ان سب کا مقصد بلکہ خواہش یہ ہے کہ ’’کوئی پیپلز پارٹی کا شکار‘‘ کر کے ان کے آگے ڈالے پھر یہ اسے چیریں پھاڑیں۔ اس پر دو رائے نہیں کہ پیپلز پارٹی کے موجودہ ساڑھے9 سالہ دور میں سند ھ میں دودھ یا شہد کی نہریں بالکل نہیں نکالی گئیں۔ اس کے اقتدار میں کج ہیں۔ شکایات بھی کچھ جائز ہیں اور کچھ محض اضافہ۔

یہ بھی پڑھئے:  میں پیپلزپارٹی کو ووٹ کیوں دیتا ہوں

جائزہ یہ ہے کہ پیر مظہرالحق نے (سابق وزیر تعلیم) محکمہ تعلیم میں ملازمتوں کی لوٹ سیل لگائی۔ سپیکر سندھ اسمبلی بھی کمانے میں دریا دل ہیں۔ اضافہ یہ ہے کہ دو ارب ڈالر سے بھری کوئی کشتی پکڑی گئی۔ شرجیل میمن کے گھر سے پانچ ارب روپے برآمد ہوئے۔ چند دن ادھر ایک ادارے کے ذمہ دار شخص سے دریافت کیا وہ لانچ والے دو ارب ڈالر اور شرجیل میمن کے گھر سے برآمد ہوئے 5 ارب روپے کہاں ہیں؟۔ ان کا جواب تھا میڈیا والوں سے دریافت کریں یا انہیں خبر دینے والوں سے۔ عرض کیا مگر سوشل میڈیا پر ڈیفنس پیج نامی پیج کے بلاگرز نے یہ خبر سب سے پہلے دی تھی۔ آپ کے ادارے کا اس سوشل نیٹ ورک سے تعلق نہیں تو کارروائی کیجئے۔ جواب ندارد، خیر اس موضوع کو رہنے دیجئے۔ یہ سندھ میں اگلی حکومت بنانے کے دعویدار ایس جی ڈی اے والے کیا واقعتاً حکومت بنانے کے قریب پہنچ جائیں گے؟ سادہ سا جواب یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی 3 سے 5 اور صوبائی اسمبلی کی10سے 13 نشستوں سے اگر سندھ میں یہ حکومت بنا سکیں تو پیشگی مبارکباد قبول کر لیں۔ سندھ کے سماج میں جب بلاول محترمہ بے نظیر بھٹو کے بیٹے کی حیثیت سے ووٹ مانگنے نکلے گا تو بہت سارے اندازے غلط ہو جائیں گے اور کچھ انویسٹر بھی سر پکڑ کر روئیں گے۔ وجہ یہی ہے کہ سندھی سماج میں بے نظیر بھٹو اپنی شہادت کے باوجود زندہ حقیقت ہے۔ پیر پگارا کو چند کوششوں کے باوجود مخدوم امین فہیم کے خاندان سے جو جواب ملا وہی سندھیوں کا جواب بھی ہوگا۔

بشکریہ روزنامہ مشرق پشاور

حالیہ بلاگ پوسٹس