خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں پچھلے ایک ہفتے کے دوران 5افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے۔ منگل کی صبح ڈیرہ تونسہ روڈ پر پرواہ کے مقام پر مقامی تھانہ سے بمشکل چند گز کے فاصلے پر معروف شاعر اور نوحہ خواں صابر حسین بلوچ کو ایک کالعدم تنظیم کے دہشت گردوں نے شہید کردیا۔ اطلاعات کے مطابق مقتول صابر حسین کو پچھلے کچھ عرصہ سے ایک شدت پسند تنظیم کی جانب سے دھمکیاں بھی دی جارہی تھیں۔ شیعہ مسلم نسل کُشی کی ابتداء سے اب تک ڈیرہ اسماعیل خان میں سینکڑوں افراد مارے گئے اس نسل کشی کا شکار ہونے والے زیادہ تر افراد کی قدیم قومی شناخت سرائیکی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی قوت ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک سے سرائیکی بولنے والے اہلِ تشیع کی نسل کشی کسی خاص مقصد کے لئے کروارہی ہے۔ ڈیرہ وہ بدقسمت شہر ہے جہاں پہلے ٹارگٹ کلنگ ہوتی ہے اور پھر نماز جنازہ پر خود کش حملے (ماضی میں اس طرح کے متعدد واقعات ہوئے ہیں) منگل کا سانحہ پرواہ ڈیرہ میں ایک ہفتے کے دوران کا پانچواں افسوسناک واقع ہے، بدقسمتی سے ڈیرہ ہی وہ شہر ہے جو ایک طرف ٹارگٹ کلنگ کا مرکز بنا ہوا ہے تو دوسری طرف شیعہ مسلم مکتب فکر کے لوگوں کی یہ شکایت بھی کہ ریاستی اداروں نے ان کے دو درجن سے زیادہ نوجوانوں کو کئی سالوں سے اغوا کررکھا ہے۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے تحریک کے قائدین ملک کے کسی بھی حصے میں ہوئی دہشت گردی پر جھٹ سے اس صوبے کی حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں مگر خود ان کے دور اقتدار کے آغاز سے آج تک خیبر پختونخوا میں ہوئی شیعہ مسلم ٹارگٹ کلنگ کے سینکڑوں واقعات پر یہ حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ اس پر ستم یہ ہے کہ تحریک انصاف نے ابھی کچھ دن قبل پاکستان میں شدت پسندی، فرقہ وارانہ دہشت گردی اور طالبانائزیشن کے گارڈفادر مولانا سمیع الحق کی پارٹی سے انتخابی اتحاد قائم کیا ہے۔ نرم سے نرم الفاظ میں یہ سوال دریافت کیا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف پاکستان کو فرقہ وارانہ دہشت گردی کی آگ میں جلانے والوں کے گارڈ فادر سے محبت و تعلق استوار کرنے میں اتنی پرجوش کیوں ہے؟۔
امر واقعہ یہ ہے کہ شیعہ مسلمانوں، صوفی سُنیوں اور دیگرمذاہب کے مظلوم طبقات کا اس ملک میں کوئی پرسانِ حال نہیں۔ ان حالات میں اگر کچھ لوگ نیشنل ایکشن پلان کو ’’ نیشنل پلان برائے تحفظ تکفریت‘‘ کہتے ہیں تو یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔ ہمیں بنا کسی اچھنبے کے یہ بات سمجھنا ہوگی کہ مختلف طبقات کی اس نسل کشی مہم پر ریاست کی سرد مہری اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل ہردوسے ریاست اور شہریوں کے درمیان بد اعتمادی بڑھ رہی ہے۔ سانحہ پرواہ نے ایک بار پھر اس امر کی تصدیق کردی ہے کہ کے پی کے کی صوبائی حکومت کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال کیا ہے۔ عجیب بات ہے اپنے ایم این اے اور صوبائی وزیر کے اختلافات پر تو عمران خان جھٹ سے میدان میں کودے اور ایم این اے کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کردیا مگر انہیں یہ توفیق نہیں ہوئی کہ صوبے کے وزیر قانون، وزیرداخلہ اور آئی جی پولیس سے دریافت کریں کے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟۔ ہمارے لئے نسل کشی کے متاثرین کے اس الزام کی تائید مشکل ہے کہ ’’تحریک انصاف آئندہ الیکشن میں کامیابی کے لئے ایک مخصوص مائنڈ سیٹ والے طبقے کی ناز برداریوں میں مصروف ہے اور یہ کہ شیعہ ٹارگٹ کلنگ پر اس کی مجرمانہ خاموشی اسی سوچ کا حصہ ہے‘‘۔البتہ ہم یہ عرض کرنا ازبس ضروری خیال کرتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کی حکومت صوبے میں آبادی کے مختلف طبقات اور بالخصوص شیعہ مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ بدقسمتی سے اب تو اس جماعت نے ابوالفسادات و شدت پسندی کی جماعت سے اتحاد کر لیا ہے سواب کسی کو حکومت سے خیر کی توقع نہیں رکھنا چاہئے۔ اندریں حالات ہم یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈیرہ اسماعیل خان میں جاری شیعہ ٹارگٹ کلنگ کا از خود نوٹس لیتے ہوئے کے پی کے کی حکومت کو عدالت کے کٹہرے میں طلب کریں تاکہ کہیں تو یہ نااہل جواب دہ ہوں۔
یو این این
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn