Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

سعودی عرب – بادشاہت کے پردے پیچھے کیا ہو رہا ہے ؟ | حیدر جاوید سید – قلم کار

سعودی عرب کے اندر کیا کچھڑی پک رہی ہے ؟ ولی عہد کی تبدیلی سے اب تک کے معاملات کا بغور جائزہ لیا جائے تو فوری طور پر لگتا ہے کہ قبضہ گیری دم توڑنے کو ہے۔ کیا غیر فطری نظام اور ریاست دونوں تحلیل ہونے کو ہیں ؟ فوراََ یعنی کچھ عرصہ میں یا پھر عشرہ بھر یا  اس سے کچھ سال اوپر تک کےعرصہ میں؟ کیا شاہی خاندان کے اندر ولی عہد کی تبدیلی نے جو دراڑ یں ڈالی تھیں وہ ولی عہد کو طاقت کا سرچشمہ (اینٹی کرپشن کا سربراہ) بنانے سے کم ہوں گی یا گہری؟ لبنانی وزیراعظم سعد حریری کا ریاض میں بیٹھ کر مستعفی ہونا کسی خطرے کی گھنٹی ہے یا یوں کہیں کہ خود سعودی عرب جس تحلیل کی طرف بڑھ رہا ہے اس کے آگے بند باندھنے کی کوششیں ہور ہی ہیں؟ عجیب لگتا ہےکہ ایک طرف تو قدرے آزادیاں دینے کے پروگرام پر استقامت کے ساتھ عمل کرنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے ۔ یعنی مسلکی جبر کے پردے کچھ ہٹانے کا پروگرام ہے۔ خواتین کو آزادیاں ، آنے والے سالوں میں مجلس شوریٰ کے چناؤ ، جس کے لئے طے یہ ہونا ہے کہ کیا قبائل کو اپنے اپنے رکن یا ارکان کے انتخاب کا حق ہو گا یا پھر ون مین ون ووٹ سے عام چناؤ کروایا جائے گا۔ مستقبل کے حوالے سے دی گئی ان تسلیوں کے بیچوں بیچ اتوار کو جن شہزادوں کے علاوہ وزراء یا گورنر کو برطرف کر کے گرفتار کیا گیا ہے ان کے بارے میں خود بلاد عرب میں عمومی رائے یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ولی عہد کی تبدیلی کوذہنی طور پر قبول نہیں کیا تھا۔ اس ذہنی رجحان پر قابو پانے کے لیے شاہ اور ولی عہد کی توہین پر اب پانچ سے دس سال قید اور جائیداد ضبط کرلینے کا قانون آ گیا ہے۔ نجد و حجاز جو اب سعودی عرب کہلاتا ہے، پر تاریخ کے طویل دورانیے میں نجدیوں کے اقتدار اور بالا ددستی کا یہی دور ملتا ہے جو ابھی جاری ہے۔ اس دور کی بنیاد کیسے پڑی ؟ سادہ لفظوں میں یہ کہ برطانوی سامراج کی سرپرستی میں کیونکہ محمد بن عبدالوہاب نامی مذہبی رہنما یا شاہ سعود دونوں کو آگے لانے اور بڑھانے میں برطانوی کردار کسی سے مخفی نہیں۔ اتوار کو سعودی عرب میں انسداد کرپشن کی طوفانی لہر کی زد میں آنے والے شہزادے اور وزراء یا گورنر و نائب گورنرز محض وظیفہ خور شہزادے نہیں جو "مست و الست” رہتے ہوں۔ سابق وزیرخارجہ الولید بن طلال سعودی عرب اور دنیا  کے امیر ترین افراد میں شامل ہیں۔ ولید اور امریکی صدر ٹرمپ کے درمیان امریکہ کے حالیہ صدارتی انتخابات کے دوران سخت جملوں پر مبنی ٹویٹس کا تبادلہ ٹویٹر پر انہیں فالو کرنے والوں کے ذہنوں میں ہے مگر یہ حتمی وجہ گرفتاری نہیں اصل وجہ ان کا قلبی طور پر شہزادہ نائف سابق ولی عہد کے قریب ہونا ہے۔ اس طرح نیشنل گارڈ کے سربراہ  مطلب بن عبداللہ جو سابق شاہ عبداللہ کے صاحبزادے اور معزول ولی عہد کے قریبی ساتھی تصور ہوتے تھے کی گرفتاری بہت کچھ سمجھا دیتی ہے۔ صوبہ عیسر کے نائب گورزنہ شہزادہ منصور بن مقرن کی 7 اعلیٰ عہدیداران (ان میں سے بھی پانچ کا تعلق شاہی خاندان سے ہے) کی یمن کی سرحد کے قریب  ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاکت کی وجہ بارے سعودی حکام اور میڈیا دونوں خاموش ہیں مگر کہا یہ جا رہا ہے کہ منصور بن مقرن چند عزیزوں کے ہمراہ ملک سے فرار ہورہے تھے ۔ ان کے فرار کا راستہ روکنے کے لئے "حادثہ” کروایا گیا۔ گرفتار شدگان میں 3 سابق اور 4 موجودہ وزیر شامل ہیں ۔ اتوار کو جو سپریم انٹی کرپشن کمیٹی ولی عہد کی سربراہی میں قائم کی گئی اسے لامحدود اختیارات حاصل ہیں۔ اس کو اختیارات کی ہیبت کہیں کہ منہ چڑھی مذہبی اسٹیبلشمنٹ  نے ولی عہد کے اقدامات اٹھانے سے پہلے انسداد کرپشن "جہاد” کے حق میں بنا  حیل و حجت کے بغیر فتویٰ جاری کر دیا ۔ یوں ناقدین کہتے ہیں شاہ سعود کے کسی بھی بیٹے کی زندگی میں اپنے بیٹے کو ولی عہد نامزد کرنا روایات کے کے منافی ہے۔ روایات کے منافی تو آلِ سعود کا آلِ عبدالوہاب کے ہمراہ حجاز پر قبضہ کر کے  اسے سعودی عرب کا نام دینا بھی تھا۔ طاقت کی اپنی روایات ہوتی ہیں جو سب سے طاقت ور شخص خود بناتا ہے۔ سعودی عرب کے نئے ولی عہد اور سپریم  انٹی کرپشن کمیٹی کے سربراہ شہزادہ محمد بن سلمان بظاہر اصلاح پسند ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر وہ خطے میں سعودی بالادستی کے نئے نوجوان اور پرجوش ماسٹر مائنڈ ہیں۔ یمن کے خلاف سعودی جارحیت ان کے دماغ کا منصوبہ تھا۔ اس لئے اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے اپنے حریفوں ، ناقدین اور نائف کے بہی خواہوں، تین طرح کے طاقت ور شہزادوں سے ایک ہی جھٹکے میں جان چھڑا لی ہے تو یہ غلط بھی نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دو ہفتے قبل امریکی وزیرخارجہ کے دورہ سعودی عرب کے دوران جو امریکہ سعودیہ اتحاد برائے لبنان و ایران قائم ہوا ہے اس کا اگلا قدم کیا ہو گا؟ اس قدم پر غور کرنے سے قبل دو باتیں ذہن میں رکھیں۔ امریکی وزیرخارجہ کے دورہ سعودی عرب کے دوران ولی عہد محمد بن سلمان نے دو اہم باتیں کی تھیں ۔ اولا ََ یہ کہ خطے میں ایران کے کردار کو محدود کرنے کے لئے ہر ممکن اقدام کریں گے۔ ثانیاََ یہ کہ لبنانی حزب اللہ  عربوں (یہاں عربوں سے زیادہ مناسب آل سعود اور عبدالوہاب ہو گا)کے لیے  خوفناک خطرہ ہے۔ کیا ہم 2006ء کی حزب اللہ ،اسرائیل جنگ کے دنوں کو ایک بار پھر یاد نہ کرلیں جب اس جنگ کے دوران عرب لیگ  کے اجلاس میں سعودی عرب کی تحریک پر لبنانی حزب اللہ کوکثرت رائے سے دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا تھا۔ یہ وہی اجلاس  ہے جس میں لیبا کے حکمران کرنل معمر قذاقی نے ایک شاندار اور تاریخی حوالوں سے بھرپور تقریر کی تھی۔ لیبیا ، عراق اور شام نے سعودی قرار داد کی کھل کرمخالفت کی جبکہ مراکش غیر جانبدار رہا۔ حزب اللہ کے خلاف سعودی قرار داد کی مخالفت کرنے والوں پر کیا بیتی پچھلے گیارہ سال کے ماہ و سال کی تاریخ کے اوراق الٹ لیجیے جواب مل جائے گا۔

یہ بھی پڑھئے:  تین عشروں بعد سعودیہ اور عراق کے درمیان فضائی سروس بحال

ایک ایسے وقت میں جب دو ہفتے قبل ایران اور حزب اللہ کے خلاف نیا امریکی سعودی اتحاد  معرض وجود میں آیا اور پھر اس کے بعد سعودی عرب کے اندر کی تبدیلیاں یا پھر سعد حریری لبنانی وزیراعظم کا سعودی عرب میں بیٹھ کر مستعفی ہونا اور سعودی انٹیلی جنس حکام کا دعویٰ کہ سعد الحریری کے خلاف خطرناک سازش ہو رہی تھی ان سارے معاملات کو ایک دوسرے سے الگ کر کے کیسے دیکھا جائے گا؟کرپشن ، منی لانڈرنگ اور اس جیسے دوسرے الزامات کی اوقات کیا ہے۔ کیا شاہ سلمان نے حالیہ سالانہ تعطیلات کے دوران جو دولت اڑائی وہ اسلامی تعلیمات کے منافی نہیں تھی؟اسلام ، کرپشن ، سعودی مملکت کے مفادات یہ سب ڈھکوسلے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ شہزادوں  کی طاقتور ترین لابی کا چہرہ سمجھے جانے والے شہزادہ الولید بن طلال اور مطلب بن عبداللہ  ،عادل فقیہ اور فہد بن عبداللہ کی گرفتاریاں آسانی سے ہضم ہو جائیں گی؟ کیا آل عبدالوہاب نچلی بیٹھے گی جس سے سعودی تاریخ میں پہلی بار ایک حکم نامے کے ذریعے ان اقدامات کے حق میں فتویٰ لیا گیا؟ سادہ سا جواب یہ ہے کہ بادشاہت ، سنسر شپ اور آل عبدالوہاب کے مسلکی جبر کے آہنی پردوں کے پیچھے سب اچھا ہرگز نہیں۔ نوجوان ولی عہد مملکت کے اندر اور خطے میں شخصی اور ریاستی طاقت کا لوہا منوانے کی جس جلدی میں  ہے یہ گلے بھی پڑ سکتی ہے ۔ گو فوری خطرہ نہ بھی سر اٹھائے لیکن غیر فطری ریاست اور اس کی پشت پر کھڑے دو سو سال کے مذہبی انکار دونوں کی تحلیل کا ابتدائیہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ فقط اتنی سادہ سی بات نہیں جس کا امریکی ذرائع ابلاغ یا مغربی ذرائع ابلاغ کا دانہ چگ کر دانش کی ہنڈیا چڑھانے والے ذکر کر رہے ہیں ۔ نئی صف بندیاں ریاستوں کے اندر اور مملکتوں کی سطح پر ناگزیر ہیں ۔ سعودی جن قدرتی وسائل پر اتراتے نہیں تھکتے ان کی عمر پوری ہونے کے قریب ہے۔ ٹیکسوں کے نئے قوانین ، نئے ٹیکسز کا نفاذ، بیرونی عددی طاقت پر انحصار کم کرنے کی پالیسی کے ساتھ آمدنی کے متبادل ذرائع کی تلاش ، یہ وہ سارے نکات ہیں جنہیں سعودی عرب کی تارہ ترین صورتحال کا تجزئیہ کرتے وقت ذہن میں رکھنا ہو گا۔ مکرر عرض ہے کہ غیر فطری ریاست ہو ، نظام یا نظریہ تینوں کو دوام حاصل نہیں۔ وقت کے ساتھ ان کی بنیادیں کمزور ہو جاتی ہیں۔ بظاہر جبر بھرا استحکام دکھائی دیتا ہے مگر تضادات گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ایک دو نہیں متعدد مسائل کا سامنا ہے سعودی عرب کو ۔ نوجوان ولی عہد نے مسائل کے حل پر سنجیدہ توجہ دینے کی بجائے پچھلے چند ماہ کے دوران ایسی پالیسیاں اپنائی ہیں جو مسائل کو گھمبیر اور اختلافات (اندرونی اختلافات) کو  وسیع کرنے کا باعث بنتی دکھائی دے رہی ہے۔ حالیہ اقدامات متکبرہ طاقت کے تابوت میں آخری نہیں تو آخری سے پہلے کا کیل ثابت ہو گا۔

حالیہ بلاگ پوسٹس