Qalamkar Website Header Image

تھری ان ون کالم | حیدر جاوید سید

قومی اسمبلی میں امریکی صدر ٹرمپ کے نامناسب بیانات کے خلاف منظور کی جانے والی قرارداد کے وقت ایوان میں 55ارکان موجود تھے۔ ایوان کا کورم برقرار رکھنے تاکہ اجلاس جاری رہے 86ارکان کا حاضر ہونا ضروری ہے۔ اندازہ کرلیجئے کہ قومی اہمیت کے حامل اس معاملے سے ارکان قومی اسمبلی کو کتنی دلچسپی ہے۔ فقیرراحموں کہتے ہیں کہ اگر قرارداد کی منظوری کے ساتھ ارکان اسمبلی کو امریکی گرین کارڈز تقسیم کرنے کا پروگرام بھی ہوتا تو ارکان اسمبلی ایوان کے اندر اور اہلخانہ اسلام آباد کے انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر موجود ہوتے۔ قرارداد کی منظوری کے ساتھ ہی یہ ارکان دستیاب پروازوں سے امریکہ چلے جاتے۔ ناگوار نہ گزرے تو عرض کروں یہ جو ہمارے ملک کو اپنے اپنے عقیدوں کے اسلامی نظام کے نفاذ کی تجربہ گاہ بنانے پر تُلے ہوئے ہیں اگر کبھی (اﷲ نہ کرے) ان میں سے کسی کی فہم کا نظام اسلام نافذ ہوا تو اس فہم کے پیروکار اگلے چندماہ میں آپ کو یورپ کی سڑکیں ناپتے ہوئے ملیں گے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ مسلم ممالک میں پیدا ہونے والوں کی اکثریت زندگی یورپ کی آزاد فضاﺅں میں بسر کرنا چاہتی ہے اور تدفین جنت البقیع میں۔ اﷲ ہی پوچھے گا اس فقیرراحموں کو صبح کے اُجالے کے ساتھ ہی کیا لکھوا دیا۔ معاف کیجئے گا بالائی سطور کے ساتھ تحریر نویس کا متفق ہونا ضروری ہرگز نہیں کیونکہ یہ زبردستی نہیں بلکہ بہلاپھسلا کر لکھوائی گئی ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ہیں تو ساری باتیں درست لیکن اخلاق اور مروت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اڑھائی پونے پانچ ارکان قومی اسمبلی سے عشروں کی یاداﷲ ہے۔ دو ذاتی دوست ہیں مذہبی حلقوں سے آج کل ہی نہیں ہمیشہ فاصلہ رکھتا ہوں۔ بہت ساری وجوہات ہیں اہم ترین اپنی آزادخیالی اور سوال کرنے کی عادت ہے۔ ویسے وہ سوال اچھے ہوتے ہیں جن کا کوئی جواب نہ دینا چاہے مثلاً کل (بدھ کے روز) پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف نے اپنی ”پھڑکتی“ ہوئی پریس کانفرنس کے دوران لگ بھگ چار سوالوں کے جواب دینے سے یوں گریز کیا جیسے سنائی ہی نہیں دیئے ہوں۔ پریس کانفرنس دیکھ کر مجھے پرانی پنجابی فلموں کے اداکار ساون مرحوم یاد آگئے۔ شہبازشریف میں ہلکا ہلکا عکس ہے ساون مرحوم کا بس انداز گفتگو کی حد تک۔ ایک بات انہوں نے بتائی نہیں کہ اگر وہ ملتان میٹرو کے منصوبے میں ایک ارب 70 کروڑ روپے کے کمیشن کے ”حقدار“ نہیں تھے تو انہوں نے فروری 2017ءمیں جب یہ معاملہ منظرعام پر آیا تو تحقیقات کروانے کا اعلان کیوں نہ کیا؟

ویسے ان کا یہ اعلان کہ ”اگر ایک دھیلے کی کرپشن ثابت ہوجائے تو عوام کو ان کا گریبان پکڑنے کا اختیار ہے“۔ بس اعلان ہی ہے۔ ایک دھیلے کی کرپشن تو آج کل گھر سے سبزی لینے جانے والا بچہ بھی نہیں کرتا۔ وہ بھی پانچ دس روپے پر ہاتھ مارتا ہے تاکہ لذتِ دہن حاصل ہوسکے۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ شریف خاندان جو ”1937ء سے قبل بھی ارب پتی تھا اور 1940ء سے ٹیکس گزار بھی ہے“ پر کون کرپشن کا الزام لگاتا رہتا ہے۔ رشوت اور کمیشن چل کر آتے ہیں۔ گھر آئے مہمان کو دھتکارا تو نہیں جاسکتا۔ خیر چھوڑئیے ان باتوں کو بدھ کے روز تو شہبازشریف ویسے بھی بہت جذباتی تھے بھاجی لندن روانہ ہوگئے انہیں سرد و گرم حالات کا سامنا کرنے کے لئے چھوڑ کر۔ کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بھاجی (میاں نوازشریف) اصل میں چھوٹے بھائی کو نقد ضمانت کے طور پر چھوڑ کر گئے ہیں تاکہ سند رہے اور وہ واپس آئیں۔ لوگوں کی باتوں میں آنے کی ضرورت نہیں یہ اور بھی بہت کچھ کہتے ہیں مثلاً یہ کہ H180 ماڈل ٹاﺅن کےلئے ایوان وزیراعلیٰ کا درجہ اس لئے ختم کیا گیا ہے کہ پچھلے 15دنوں سے نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز لاﺅلشکر سمیت اس پر قابض ہیں۔ چند دن قبل وزیراعلیٰ کے دفتر سے ایک حکم جاری ہوا تھاکہ H180 ماڈل ٹاﺅن سے جاری ہونے والے احکامات کو وزیراعلیٰ ہاﺅس کے احکامات نہ سمجھا جائے۔ پھر حکم ہواکہ اگر مریم نواز کوئی حکم جاری کریں تو پہلے وزیراعلیٰ سے اس پر عمل کرنے یا نہ کرنے بارے دریافت کرلیا جائے۔ صورتحال کیاہے اسے آپ اگر زیادہ تسلی بخش انداز میں سمجھنا چاہتے ہیں تو اس تصویر کو غور سے دیکھئے جس میں نوازشریف لندن روانگی سے قبل شہبازشریف سے الوداعی ملاقات کررہے ہیں۔ کبھی کبھی تصویریں بھی بولتی ہیں۔ اس بولتی تصویر پر پوری داستانِ ”رنج و الم“ لکھی جاسکتی ہے۔ چلتے چلتے ایک اور بات عرض کئے دیتا ہوں بدھ کے روز شہبازشریف نے ملتان میٹرو منصوبے کی کرپشن والی خبر نشر کرنے پر ایک ٹی وی چینل کے خلاف جی کے پھپھولے خوب پھوڑے اور قدرے زیادہ واضح لفظوں میں نونیوں کو اس چینل پر کام کرنے والوں کی عزت افزائی پر بھی اکسایا جو آزادیء اظہار کے منافی ہے۔ کمیشن خوری والی خبر تو خبر ہے اسے غلط ثابت کرنا شہبازشریف کا کام ہے اور ثابت کرتے وقت یہ بھی بتانا پڑے گاکہ تقریباً 6ماہ خاموش کیوں رہے۔ کیا وہ اس سارے معاملے پر مٹی پاﺅ پروگرام چلا رہے تھے اور کیا جیساکہ بعض اطلاعات یہ بھی ہیں کہ امریکہ میں حبیب بینک کو ہوئے جرمانے کی وجہ شریف فیملی کے کچھ مالی معاملات ہیں درست ہیں؟

یہ بھی پڑھئے:  اک ملاقات اک فسانہ - حیدر جاوید سید

سیاسی کالم لکھنے کا بالکل ارادہ نہیں تھا۔ خیال تھاکہ ہر سال کی طرح آپ کی خدمت میں عرض کروں کہ قربانی کی عظیم سنت ادا کر چکنے کے بعد قربان کئے گئے جانور کی کھال کسی فرقہ پرست اور فرقہ پرستوں کے سہولت کار مولوی یا ادارے کو دینے کے بجائے کوشش کیجئے کہ مستحق افراد اور اداروں کو عطیہ کریں۔ مستحق افراد تو خاندان کے دونوں اطراف سے شروع ہوتے ہیں۔ پڑوس اور اہل محلہ کے مستحقین اسی میں شامل ہیں۔ اداروں میں شوکت خانم ہسپتال ہے‘ ایدھی ٹرسٹ‘ بچوں کےلئے انتقال خون کے بہت سارے ادارے کام کررہے ہیں۔ ویسے ملتان کے نشتر ہسپتال کو بھی ان عطیات کی ضرورت ہے جسے پچھلے 9سال سے پنجاب حکومت مسلسل نظرانداز کرتی چلی آرہی ہے۔ ہمارے عزیز دوست ملک طارق بھابھہ نے مظفرگڑھ میں غوثیہ شریعہ کالج برائے طالبات قائم کررکھا ہے ان کا یہ ادارہ خالصتاً عطیات پر اعلیٰ کارکردگی سرانجام دے رہا ہے۔ ایک دوست کی حیثیت سے میرے اطمینان کے لئے یہ بات بہت اہم ہے کہ ملک طارق بھابھہ اور ان کی ماہرتعلیم اہلیہ محترمہ اپنی ماہوار آمدنی کا 70/70فیصد کالج کو عطیہ کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر فلاح کے پروگراموں کا اصل حسن بھی یہی ہے کہ اس نیک کام کا آغاز کرنے والے گھر سے بھی کچھ عطیہ کرنے میں پہل کریں۔ غوثیہ کالج آف شریعہ کا بنیادی حسن یہی ہے کہ دونوں میاںبیوی نے اپنی جائیدادوں کا نصف سے زیادہ حصہ کالج کے لئے وقف کررکھا ہے۔ اس کالج سے اب تک سینکڑوں طالبات تحصیل علم کرچکیں اور درجنوں طالبات ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہیں۔ شوکت خانم ہسپتال لاہور کے بعد پشاور میں بھی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ کینسر جیسے موذی مرض کے نادار مریضوں کا مفت علاج کرنے والا ایشیاءمیں اپنی نوعیت کا یہ جدید ترین کینسر ہسپتال ہے۔ سالانہ 6ارب روپے سے زیادہ کے امدادی اخراجات اہل پاکستان کے تعاون سے ہی پورے ہوپاتے ہیں۔ ایدھی ٹرسٹ بھی عالمی شہرت کا حامل ادارہ ہے۔ دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت مرحوم عبدالستار ایدھی نے یہ ادارہ قائم کیا تھا اور آج دنیا بھر میں اس کی خدمات کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔ نادار بزرگوں کے لئے جدید ہومز‘ سینکڑوں بچوں کی کفالت اور انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کروانے کے لئے جاری مسلسل عمل‘ ہنگامی صورتحال میں ایدھی کے رضاکاروں کی بے مثال خدمات یہ سب اہلِ دل کے تعاون سے ہی ممکن ہے۔ ایدھی ٹرسٹ کو بھی اپنی فلاحی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لئے سالانہ اربوں روپے کی ضرورت پڑتی ہے۔ بلاشبہ پاکستانی عوام آنکھیں بند کرکے اس فلاحی ادارے پر اعتماد بھی کرتے ہیں۔ کالم کے دامن میں گنجائش ہوتی تو بچوں کے لئے انتقال خون کی سہولت فراہم کرنے والے اداروں کا تعارف بھی لکھتا۔ مکرر عرض ہے اول مستحق اپنے عزیزواقارب اور اہل محلہ میں دیکھئے اور ان کی مدد کیجئے۔ مولوی کی دکان تو سال بھر چلتی رہتی ہے۔ انسانیت کی خدمت کرنے والوں کو ہمارے اور آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ آقائے دوجہاں سرکاراحمد مرسل نورِمجسم حضرت محمد مصطفی کریمؐ فرماتے ہیں ”بہترین انسان وہ ہے جو اپنے لئے پسند کی گئی چیز ہی اپنے بہن بھائیوں کے لئے پسند کرے“۔ ہم میں سے کوئی بھی ہاتھ پھیلانا پسند نہیں کرتا سو پہل کیجئے ان مستحقین کی اعانت میں تاکہ وہ ہاتھ پھیلانے سے محفوظ رہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  بجٹ اور بے یقینی اہداف !

بشکریہ: روزنامہ خبریں ملتان

حالیہ بلاگ پوسٹس