Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

ایک قوم پرست دوست کے لئے جواب آں غزل! | حیدر جاوید سید

ابتداً دو تین باتیں عرض کئے دیتا ہوں۔ اولاً یہ کہ سوال تنقید اور مکالمہ طالب علم کی حیثیت سے کرتا ہوں’ خبط عظمت کی بیماری کا شکار نہیں۔ اس امر سے کاملاً آگاہ ہوں کہ حُسنِ زندگی آراء کے احترام میں ہے اور یہ کہ تعلق قلبی ہوں یا نسبی نبھانے کے لئے ہوتے ہیں۔ ثانیاً یہ کہ چھ عشروں کے سفر حیات میں پہلی سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی تھی جس کی رکنیت حاصل کرکے خوشی ہوئی۔ بہت بعد میں سرائیکی قوم پرستوں کی ایک جماعت نیشنل سرائیکی پارٹی کارکن بنا۔ دونوں بار جماعتی تعلق رکنیت کی حد تک اس لئے ختم کرنا پڑا کہ ایک عامل صحافی کا کسی سیاسی جماعت کا حامی ہونا بری چیز نہیں البتہ رکن رہ کر آزادانہ رائے کا اظہار ممکن نہیں رہتا۔ چار دہائیوں کے بعد آج بھی اپنے سیاسی استاد ڈاکٹر اعزاز نذیر کا شکر گزار ہوں جنہوں نے فرمایا تھا ” صاحبزادے سیاست کرو یا صحافت دونوں کل وقتی کام ہیں اس لئے ایک ہی کشتی کے مسافر بنو”۔ استاد مکرم کی بات دل کو لگی۔ سیاست کے کوچہ سے سال 1973ء میں نکل لئے۔ پیپلز پارٹی کا رکن تھا نہ ہوں۔ ثانیاً یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے لئے دل میں ایک احترام اور محبت ہے۔ ویسا ہی احترام خان عبدالولی خان مرحوم اور اب میاں افتخار حسین کے لئے ہے۔ جناب زرداری میرے لیڈر تھے نہ بلاول میاں لیڈر ہیں۔ ایک فہمی تعلق بہر طور پیپلز پارٹی اور اے این پی سے محسوس کرتا ہوں۔ پیپلز پارٹی سے شکوہ یہ ہے کہ وہ اب سامراج دشمن جماعت نہیں رہی بلکہ مروجہ سیاست کاری کی دلدل میں اتر چکی۔ اے این پی جو کبھی اس ملک کی تمام قومی اکائیوں کے ترقی پسندوں کی جماعت تھی آج فقط پشتون قوم پرستی کی اساس سنبھالے ہے۔ہماری نسل کے لوگ اب بھی ان دونوں جماعتوں سے ترقی پسند سامراج دشمن اور عوام دوست سیاست کی قدرے امید کرتے ہیں۔

طویل تمہید کی وجہ میرے قابل احترام قوم پرست دوست اور اے این پی کے رہنما محفوظ جان کا جواب دعویٰ ہے جو انہوں نے سپرد قلم کیا اور سوشل میڈیا کے میدان میں رکھ دیا۔ مکرر عرض کروں نواز شریف کی رخصتی پر جشن منایا نہ بھنگڑے ڈالے یہ ضرور عرض کیا جو کل درست تھا ان کے خلاف فیصلہ آنے پر غلط کیوں۔ تفصیلات دہرانا ضروری اس لئے نہیں کہ پچھلے دو (گزشتہ سے قبل کے ) کالموں میں تفصیل کے ساتھ معروضات عرض کرچکا۔ طالب علم ان دوستوں سے متفق نہیں جو یہ سمجھتے کہتے اور لکھتے ہیں کہ نواز شریف خم ٹھونک کر میدان میں اتر آئے ہیں اس لڑائی میں نواز شریف کا ساتھ نہ دینے کا مطلب اسٹیبلشمنٹ کی تائید کرنا ہے۔ یہاں ایک بات اور عرض کردوں وہ یہ کہ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ لبرلز اور کمرشل لبرلز کے فرق کی وضاحت ان کالموں میں تفصیل کے ساتھ عرض کرچکا۔ لبرلز نظام حکومت کو انسانیت کے مفاد میں خیال کرتے ہیں کہ حکومت کا مذہب نہیں قانونی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ کرشل لبرلز انہیں کہتا ہوں جو 1986ء سے قبل تو سوویت یونین کو فکری قبلہ قرار دیتے تھے مگر سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ ہی امریکی اور مغربی سامراج کی این جی اوز میں بھرتی ہوگئے۔ ہمارے قوم پرست اور لبرلز (کمرشل لبرلز نہیں) اندازے کی غلطی کا شکار ہیں۔ نواز شریف جس خطے سے ہیں اس خطے کے سیاستدانوں کے خمیر میں اسٹیبلشمنٹ سے لڑنا شامل ہی نہیں۔ پھر ہم کیوں اس لڑائی کا ایندھن بنیں؟ جو باتیں انہیں اب یاد آرہی ہیں وہ چار سال بطور وزیر اعظم کیوں نہ یاد آئیں۔ احتساب کے اجتماعی عمل کے لئے قانون سازی’ داخلی اور خارجی پالیسیوں کی تشکیل وسیع تر جمہوری ڈائیلاگ؟ جج یوسف رضا گیلانی کے خلاف فیصلہ دیں تو قانون کی سر بلندی’ زرداری کو گھسیٹیں تو آئین کا وقار لیکن وہی جج میاں صاحب کے خلاف فیصلہ دیں تو اسٹیبلشمنٹ کی سازش جو پی سی او ججز کے ساتھ مل کر تیار ہوئی۔ تکرار کے ساتھ ان کالموں میں عرض کرتا ہوں عوامی جمہوریت ہماری عصری ضرورتوں کے ساتھ اگلی نسلوں کے مستقبل کی ضمانت ہے۔ عوامی جمہوریت سیکولر اساس پر قائم ہوتی ہے۔ جناب نواز شریف ایک خاص مذہبی اور کاروباری فہم کے حامل ہیں وہ اپنی فہم کی حدود سے تجاوز کریں گے تو سیکولر مخالف ووٹ بنک سے محروم ہوں گے۔ گھاٹے کا سودا وہ کر نہیں سکتے۔ جدوجہد کی دنیا کے آدمی نہیں’ راج پاٹ کی دنیا کے شخص ہیں خرید لو بیچ دو’ دو جمع دو سے سات بنائو۔ ایک ایسا سیاست کار کیسے جمہور مزاج سیاست دان بن سکتا ہے ان پر وقت برباد کرنے اور ان کے بچائو کی جنگ کا ایندھن بننے سے کہیں بہتر ہے کہ اے این پی اور پیپلز پارٹی اپنے اساسی نظریات سے رجوع کریں۔ عوام دوستی’ ترقی پسندی” سامراج دشمنی’ جمہور کا حق حکمرانی یہی چار باتیں ان دونوں جماعتوں کو دوسری جماعتوں کے مقابلہ میں ممتاز کرتی تھیں۔ سمجھوتوں اور مروجہ سیاست کی دلدل میں اتر کر نیک نامی ملی یا رسوائی اس کے تجزئیے کی ضرورت ہے۔ ایک بات اور عرض کردوں ایک طالب علم کی حیثیت سے سیکولر پس منظر رکھنے والی جماعتوں کا کسی بھی حال میں منافرت پھیلانے والی دیندار تنظیموں سے اتحاد کو غلط سمجھتا ہوں۔ بلدیاتی انتخابات کے دوران اے این پی اور پیپلز پارٹی نے چند مقامات پر غلط فیصلے کئے تنقید ہوئی دونوں نے بڑے پن کے ساتھ غلطی تسلیم کی تحسین کی گئی۔ سو میرے پیارے قوم پرست اور لبرل دوستو! نواز شریف کی لڑائی میں شرکت نہیں بلکہ ہماری اجتماعی ضرورت عوامی جمہوریت کے لئے جدوجہد ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  عشق مقدس

بشکریہ: روزنامہ مشرق پشاور

حالیہ بلاگ پوسٹس