پچھلے کچھ دنوں سے شریف خاندان کے مردوزن کو مشرقی اقدار کی یاد نے دیوانہ بنارکھا ہے۔ ایک ڈی پی او کی اے سی اہلیہ کو طلاق دلواکر شادی کرنا بھی غالباً مشرقی روایات کی قدردانی تھی؟ لیکن چھوڑیں محمدشاہ رنگیلا کس دور میں نہیں پائے گئے۔ تاریخ کے اوراق الٹتے جائیں اور رنگیلوں سے جی بھر کے ملاقاتیں کریں۔ کاش شریف خاندان نے 1988ءاور 1990ءکے انتخابات کی مہم کے دوران مشرقی اقدار کی پاسداری کی ہوتی۔ جے آئی ٹی میں پیشی کے وقت وزیراعظم کی صاحبزادی کو جو سکیورٹی دی گئی اور جس طرح کے حفاظتی انتظامات تھے قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔ ارے صاحب گولی ماریں قانون کو دولت مندوں اور بارسوخ افراد کے گھر میں قانون ”خواجہ سرا“ کی طرح ہوتا ہے۔ اس کی فرعونیت غریب کے لئے ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر 5جولائی کی صبح فیصل آباد سے ایک ویڈیو اَپ لوڈ ہوئی۔ چند پولیس اہلکاروں نے موٹرسائیکل سوار میاں بیوی سے 500روپے طلب کئے۔ شوہر نے رسید طلب کی۔ جواب میں گالیاں پڑیں۔ اس نے رشوت دیئے بغیر موٹرسائیکل چلادی۔ پولیس اہلکار نے اسے گولی ماردی۔ گولی شوہر کے کندھے پر لگی۔ زخمی شوہر اور اس اہلیہ پر وحشیانہ تشدد دیکھ کر آنکھیں بند کرلیں۔ کیسی بے بسی ہے۔ کرپشن کے الزامات میں تحقیقات کا سامنا کرتے خاندان کے لئے بادشاہوں والا پروٹوکول اور رشوت نہ دینے والے عام شہری کی قسمت میں گولی۔ طبقاتی نظام ملوکیت کی ہی بدترین شکل ہے۔ ہم پاکستانی اسے بھگت رہے ہیں اور خوشی کے ساتھ۔ اپنے اپنے ملوکوں کے حق میں گلے پھاڑکر نعرے لگاتے، چوروں کو سخی داتا بناکر پیش کرتے رتی برابر بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔ اچھا پتہ نہیں کیوں جب شریف خاندان جنرل پرویزمشرف کے دور میں خود پر توڑے گئے پہاڑ جیسے مظالم کا ذکر کرتا ہے تو فقیرراحموں کی ہنسی نہیں رکتی۔ بھولنا ہماری قومی بیماری ہے اور شخصیت پرستی قومی کھیل۔ یہاں کس کو یاد ہے کب کیا ہوا۔
یہ کالم 5جولائی کی دوپہر میں لکھ رہا ہوں۔ یادوں کی دستک بہت شدید ہے۔ بہت سارے دوست یاد آرہے ہیں۔ وہ سبھی جو آمریت کے طویل دور کی تاریک راتوں میں مارے گئے۔ جے آئی ٹی میں شریفین کی پیشیوں پر روتے منہ بسورتے لیگی‘ درباری اور پٹواریوں نے ریاستی جبر دیکھا سہا ہی نہیں۔ وقت پڑا تھا تو میاںصاحب معافی نامے کے عوض 10سالہ معاہدہ جلاوطنی خرید کر پتلی گلی سے نکل گئے تھے۔ شاہی خاندان کے مساوی پروٹوکول میں سلجھے ہوئے افسران کے سوالوں کا جواب دینے کے بعد بین ڈالتے نونیوں کو ان کے روحانی و سیاسی گاڈفادر جنرل ضیاءالحق کے ریاستی جبروتشدد کا ایک منظر سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ ”یہ قاضی سلطان محمود تھے (اب جہانِ فانی سے رخصت ہوئے) لاہور کا شاہی قلعہ تھا۔ تفتیش کرنے والوں کے سامنے ساڑھے تین پونے چارفٹ کے اس پُرعزم سیاسی کارکن کو پیش کیا گیا تو وہ اس کا مذاق اڑانے لگے۔” قد ویخ تے گلاں ویخ“۔ قاضی بولے ”میرے قد کو نہ دیکھیں میرا عزم مدنظر رکھیں کہ مجھ سے سادہ سے سیاسی کارکن سے جنرل ضیاءالحق خوفزدہ ہے“۔ تفتیش کاروں نے منہ بھر کے گالیاں دیں اسے ”تھوڑابہت“ تشدد بھی کیا۔ پھر کہا ”کیوں جان کے دشمن بنے ہوئے ہو“۔ قاضی سلطان محمود نے جواب دیا”ملک اور جمہوریت کے دشمن کے مقابلے میں جان جاتی ہے تو پروا نہیں“۔ جنرل ضیاءالحق کی فوجی عدالتوں نے اسے تین بار قیدوبند کی سزائیں دیں۔ سال بھر شاہی قلعہ میں رکھا۔ راولپنڈی‘ اٹک‘ میانوالی اور لاہور کی جیلیں بھگتیں چھوٹے قد کے اس بڑے انسان نے۔ کبھی رویا نہ ملال کیا۔ جنرل ضیاءدنیا سے رخصت ہوئے پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی۔ کچھ عرصہ بعد راولپنڈی میں ان سے ملاقات ہوئی۔ جیل اور قلعہ کی دوستی مروت بھری تھی۔ یادوں کے دروا ہوئے۔ قاضی کہنے لگے” شاہ جی! ہمیں توڑنے والے بکھر گئے مگر ہم زمین پر شان سے کھڑے ہیں“۔
اب کیاہے باپ وزیراعظم ہے‘ چچا پنجاب کا وزیراعلیٰ‘ شہزادی پورے کروفر کے ساتھ جے آئی ٹی میں پیشی کے لئے آئی۔ نونی خواتین نعرے لگارہی تھیں۔ ضیاءکے عہدستم میں ہماری بہنیں اور خاندان کی دیگر مستورات کبھی ملاقات کے مقررہ دن جیل کے دروازے پر ملاقات کے لئے آتی تھیں تو دھکے پڑتے تھے۔ گھنٹوں چلچلاتی دھوپ میں کھڑی رہتی تھیں۔ سیاسی قیدیوں کے خاندانوں کی عفت مآب خواتین لیکن نہ تو ان خواتین نے ٹسوے بہائے‘ نہ قیدیوں نے سیاپے ڈالے اور نہ رشتہ داروں نے بین کئے۔ کرپشن منڈی کے سارے فنکار ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ فقیرراحموں تو بضد ہیں کہ اسحاق ڈار کو آسکر ایوارڈ کے لئے نامزدگی ملنی چاہیے اور مریم نواشریف کو نوبل پرائز۔ عجیب نظام ہے کرپشن کرنے والے ہیرو بناکر پیش کئے جارہے ہیں۔ اسی ملک میں 40سال پیچھے چلئے سیاسی کارکن ہونا جرم تھا اور جمہوریت و انصاف کی بات کرنا گناہ عظیم۔ اس گناہ عظیم کی پاداش میں ہمارے بہت سارے پیارے دوست زندگی کی بازی ہارگئے۔ سندھ کے قوم پرست طلباءکی تنظیم سندھ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر نذیر عباسی بھی کسی پُراسرار عقوبت خانے میں بھیانک تشدد برداشت کرتے کرتے زندگی کی سرحد سے پار چلے گئے۔ یہ ساری مسلم لیگ (ن) اپنی طاقت اور دولت کے ساتھ مل کر بھی نذیرعباسی کی جدوجہد کے ایک دن کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ ملک منتظر مہدی تھے‘ ڈاکٹر بی اے جگر‘ اعجاز مڈو‘ حبیب اللہ شاکر‘ ساجد اعوان‘ جان عالم‘ محمد خورشید‘ آفتاب جتوئی‘ علی صفدر لاکھیو‘ ایم اے گوہیر‘ فقیراقبال ہسبانی شہید‘ جواں عزم زمین زادوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ سید ظفر ہادی‘ رضاخان جمالی‘ جہانگیر بدر‘ اسلم گورداسپوری‘ ڈاکٹر غلام حسین‘ یادیں ہیں قطار اندر قطار دستک دیتی ہوئی۔ دوستوں کے چہرے آنکھوں میں اُتررہے ہیں۔
بہت شور ہے اے سی والے کمروں میں تفتیش پر۔ یہ بھی کوئی تفتیش ہے۔ ابا اور چچا کی حکومت سارے ناز اٹھائے درباری باہر نعرے ماریں اور شور مچائیں۔ شاہی قلعہ لاہور کے تہہ خانے کا عقوبت ہال قلعہ میں رہنے والے سیاسی قیدیوں کو کیسے بھول سکتا ہے۔ اس ہال میں بال کی کھال محاورے کے طور پر نہیں حقیقت میں اتارنے کے انتظامات تھے۔ درندہ صفت تفتیش کار‘ جن کے خیال میں ہم سیاسی قیدی نہیں بلکہ درجہ اول کے غدار تھے اور غداروں کے انسانی حقوق بھلا کہاں ہوتے ہیں۔ مارشل لاءانسانی حقوق پورے قدموں اور طاقت کے ساتھ یوں کھڑا ہوتا ہے کہ انسان اور حقوق دونوں اس طاقت کے نیچے سسک رہے ہوتے ہیں۔ شاہی قلعہ کی ایک کوٹھڑی سے اُلٹے ہاتھ کی ہتھکڑی لگاکر (ہاتھ پشت کی طرف کرکے ہتھکڑی لگانا) ایک قیدی کو نکال کر نیچے تہہ خانے والے ہال میں تفتیش کاروں کے روبرو پیش کیا گیا۔ نصف درجن گندی گالیوں سے سواگت ہوا اور پھر وہی اصرار۔ تم قبول کرو کہ حکومت کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ عدم قبولیت پر انسانیت سوز تشدد کا دور شروع ہوا۔ چیخیں ہال کی چھت سے ٹکرا رہی تھیں۔ جمہوریت کے لئے جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ بھیانک برتاؤ ہوا اس ملک میں۔ مارشل لاءکو جانے دیجئے لاہور کے تھانہ سرور روڈ کینٹ چلتے ہیں تب بھی میاں شہبازشریف وزیراعلیٰ تھے پنجاب کے۔ قیدی سلمان تاثیر تھے۔ برف کے بلاکوں پر ننگا لٹایا ہوا تھا پولیس نے۔ مشرقی اقدار آج کل انہیں بہت یاد آرہے ہیں مگر اس رات ہرگالی کے ساتھ سلمان تاثیر کے جسم پر ایک ٹھوکر ضرور ماری جاتی۔ سلمان تاثیر‘ ایم ڈی تاثیر کے صاحبزادے تھے مگر سلمان تاثیر کی اپنی شناخت تھی۔ پیپلزپارٹی سے تعلق تھا ان کی جماعت نوازحکومت کی فسطائیت کے خلاف جدوجہد کررہی تھی۔ کوئی جائے اور خاندان شریفیہ کے مردوزن کو سمجھائے شکر کریں اباجی وزیراعظم اور چچا وزیراعلیٰ ہے۔ سرکاری ملازم درباری بنے ہوئے ہیں۔ کرپشن میں لتھڑے کرداروں کو سلیوٹ مارے جارہے ہیں پھر بھی روتے ہیں کہ ظلم ہورہا ہے۔ معاف کیجئے گا آپ نے ظلم دیکھا ہی نہیں۔ جنہوں نے برداشت کیا اِکادُکا بچ رہے اس سماج کے بیچ۔ طبقاتی نظام میں بالادست اشرافیہ کا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے۔ آپ پھر جلاوطنی خرید کر نکل جائیں گے یہی آپ کی تاریخ ہے۔ کاش ہم طلوع صبح جمہور اور انصاف بلاامتیاز کا موسم دیکھ پائیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn