ضلع رحیم یار خان میں لیاقت پور اور چنی گوٹھ کے درمیان جمعرات کی صبح کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیزگام ایکسپریس کی مسافر بوگیوں میں آگ لگنے سے ابتدائی اطلاع کے مطابق 65 اور ان سطور کے لکھے جانے تک 75افراد جاں بحق ہوئے، 60سے زیادہ زخمی ہیں،9زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہے۔
اس المناک سانحہ کے حوالے سے متاثرہ بوگیوں کے زندہ بچ جانے والے زخمی مسافروں کے بیانات میں تضاد ہے۔
چند مسافر کہہ رہے ہیں آگ اس وقت لگی جب مسافروں کے ایک گروپ نے نماز فجر کی ادائیگی کے بعد چائے بنانے کےلئے گیس سلنڈر والا چولہا جلایا، ایک مسافر کا کہنا ہے پھٹنے والا چولہا گیس سلنڈر کا نہیں بلکہ مٹی کے تیل والا چولہا تھا جسے جلانے کےلئے چولہے کےساتھ لگے پمپ سے ہوا بھری جاتی ہے۔
چند مسافروں نے آگ لگنے کی وجہ شارٹ سرکٹ کو قرار دیا۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ تین متاثرہ بوگیوں سے مکمل طور پر جلے ہوئے پانچ سات گیس سلینڈر چولہے بھی ملے ہیں۔
تیزگام کے اس المناک سانحہ سے ہمارے روایت پرستوں نے سازش کا پہلو فوراً نکال لیا، سو شل میڈیا پر ادہم مچا کہ ”سانحہ ایک سازش کے تحت برپا کروایا گیا ہے اور مقصد آزادی مارچ کو ناکام بنانا تھا“۔
اس سازشی تھیوری کو سب سے زیادہ بدقسمتی سے نون لیگ کے حامی ان افراد نے اُچھالا جو سوشل میڈیا پر ایکٹو ہیں۔ بعض داناوں نے یہ دور کی کوڑی ڈھونڈ لی کہ سانحہ ضلع رحیم یار خان میں ہوا ہے۔
وفاقی وزیر ریلوے نے کیسے رحیم یارخان سے سینکڑوں میل دور راولپنڈی میں بیٹھ کر آگ لگنے کی وجہ گیس سلینڈر کے پھٹنے کو قرار دے دیا۔
75افراد جان سے گئے، 60زخمی ہیں، 9زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے مگر اس سانحہ سے خود لذتی تلاش کر کے سکون پاتے لوگوں کا کوئی علاج نہیں۔
علاج تو خیر عالی جناب شیخ رشید احمد کا بھی کوئی نہیں جنہوں نے جھٹ سے حادثہ کا ذمہ دار مسافروں کو قرار دےدیا۔
کرہء ارض کے اس دستیاب فطین وزیر ریلوے سے کوئی پوچھے بندہ پرور! ریلوے کے قوانین کے مطابق آتش گیر مادہ، گیس سلنڈر، مٹی کے تیل کا چولہا اور پٹرول مسافر بوگیوں میں لے جانا منع ہے۔
تیزگام ایکسپریس جب کراچی سے روانہ ہوئی تو ریلوے کے عملے نے کتنے گیس سلنڈر ضبط کئے۔ اگر گیس سلنڈروں سے گیس نکال کر مسافروں کو چولہے واپس کر دیئے گئے تھے، وہ تصدیق نامہ کہاں ہے کہ گیس سلنڈر والے چولہوں میں گیس موجود نہیں اور یہ محفوظ ہیں۔
اگر مٹی کے تیل سے جلنے والا پمپ سے ہوا بھر کر چلنے والا چولہا پھٹا ہے تو پھر سوال وہی ہے۔ مٹی کے تیل والا چولہا مسافر کوچ تک پہنچا کیسے؟۔
یہ سانحہ اس بوگی میں ہوا جو کراچی سے رائے ونڈ کےلئے ایک شخص کے نام پر بک تھی (بقول ریلوے حکام) سوال یہ ہے کہ چاہے بوگی ایک ہی نام سے بک ہوئی تھی تو کیا ریلوے کا فرض نہیں بنتا تھا کہ بکنگ کروانے والے مسافر کو دیگر ہمرائیوں کے شناختی کارڈز کی کاپیاں ریلوے حکام کو فراہم کرنے کا پابند کرے؟۔
اس طرح اگر ہم یہ مان لیتے ہیں کہ شارٹ سرکٹ کی مخصوص بدبو رات سے ہی متاثرہ بوگیوں میں محسوس کی جارہی تھی تو کیا کسی مسافروں نے اس حوالے سے تیزگام ایکسپریس کےساتھ موجود ریلوے کے معاون عملے کو کوئی شکایت کی؟۔
کیا گاڑی کی روانگی کے وقت کراچی میں ریلولے یارڈ نے مسافر بوگیوں کےلئے فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کیا؟۔ کیا کراچی ریلوے سٹیشن پر واک تھروگیٹ کام کر رہے تھے؟۔
اگر کام کر رہے تھے گیس سلنڈر والے چولہے مسافر گاڑی تک کیسے پہنچے؟۔
اس سانحہ کے حوالے سے متاثرہ ٹرین کے مسافروں نے تین وجوہات بیان کی ہیں جبکہ ٹرین کے ڈرائیور نے بیان دیا ہے کہ سانحہ گیس سلینڈر پھٹنے سے ہوا، اس بیان کو تین میں ایک موقف کا حصہ سمجھ لیجئے، یہاں پھر ایک امر کی طرف متوجہ کرنا ضروری ہے۔ ابتدائی طور پر جس مسافر بوگی میں آگ لگی اس میں تبلیغی اجتماع میں شرکت کرنے والے مسافر سوار تھے۔ بدقسمتی سے سانحہ کے اسباب پر غور کرنے اور سنگینی کو محسوس کرنے کی بجائے سوشل میڈیا پر لوگ دست وگریبان دکھائی دیئے کہ تبلیغی جماعت سے بغض پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ حادثہ چولہا پھٹنے سے ہوا۔ خدا کے بندو کیسا بغض، کیا اس انسانی المئے پر بھی تبلیغی وغیرتبلیغی کا چورن فروخت کرنا ضروری ہے؟
حادثہ والی بوگی میں مسافروں کی شناخت اور رائے منزل مقصود کی بنا پر سامنے آئی۔ اس میں تعصب، سازش یا حکومتی موقف کی حمایت کہاں سے آگئی؟۔
وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد اپنی وزارت کے علاوہ دنیا جہان کے کام کرتے ہیں۔
فقیر راحموں کہتے ہیں جناب وزیراعظم شیخ رشید کےلئے محکمہ پریس کانفرنس بنا دیں تاکہ وفاقی وزیر برائے پریس کانفرنس شیخ رشید صبح ناشتے، دوپہرکے کھانے، سہ پہر کی چائے اور پھر شام کے کھانے کے بعد ایک پریس کانفرنس کھڑکا لیا کریں۔
بطور وزیر وہ ماضی میں بھی ناکام رہے اور اب بھی وہ ریلوے کےلئے سیاہ بخت ثابت ہوئے ہیں۔
بلاشبہ جمعرات کو تیزگام ایکسپریس میں پیش آنے والا سانحہ ملکی تاریخ کے چند المناک سانحوں میں سے ایک ہے، چند دن کی بیان بازی، تحقیقات کے وعدے اور مٹی پاو پروگرام ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔
وزیراعظم عمران خان جب اپوزیشن رہنما تھے تو ریلوے کے حادثوں پر متعلقہ وزیر کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے یورپ کی مثالیں دیا کرتے تھے لیکن جمعرات کے المناک حادثہ کے بعد انہوں نے اپنے وزیر ریلوے سے اب تک استعفیٰ طلب نہیں کیا۔
یہ درست ہے کہ وزیراعظم نے سانحہ کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے پندرہ دنوں میں رپورٹ طلب کرلی لیکن کیا یہ دریافت کیا جا سکتا ہے کہ پچھلے ایک سال کے دوران ریلوے میں جو حادثات ہوئے ان کی رپورٹس کہاں ہیں۔
بہت احترام سے عرض کروں کہ اس حادثے کے ذمہ دار اصولی طور پر وفاقی وزیر ریلوے ہیں۔ وہ کیوں اس بات سے بے خبر ہیں کہ ٹرینوں اور خود ریلوے اسٹیشنوں پر حفاظتی اقدامات ہی موجود نہیں۔ جدید آلات صرف خانہ پُری ہیں، ٹرینوں کےساتھ جانے والے تین قسم کے عملوں کے ارکان بھی صرف ذاتی کمائی پر توجہ دیتے ہیں۔ اہلکاروں کی غفلت یا مسافروں کی ذمہ دار ہر دو صورت میں ریلوے حکام اور جناب شیخ ہی ہیں۔
ہفتہ 2 نومبر 2019ء
روزنامہ مشرق پشاور
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn