Qalamkar Website Header Image

یہ بچی اب مر چکی

” جن عورتوں کے ہاں آپریشن سے بیٹی پیدا ہوتی ہے وہ جلدی صحت یاب ہو جاتی ہیں نسبتاً ان خواتین کے جن کے ہاں آپریشن سے بیٹا پیدا ہوا ہو”۔ یہ الفاظ ایک سینئر میل نرس کے تھے جو کافی عرصہ سے Obs & Gyne ڈیپارٹمنٹ میں کام کر رہا تھا، اس کا یہ کہنا تھا کہ یہ سن کر میں لرز سا گیا اور اس کی طرف دیکھنے لگا، اس نے کہا سر میں صحیح کہہ رہا ہوں، کئی سالوں سے اس ڈیپارٹمنٹ میں کام کر رہا ہوں اور میں نے ان تمام سالوں کے مشاہدے کی روشنی میں یہ بات کی ہے۔

اس نے کہا کہ جس عورت کے ہاں آپریشن سے بیٹی پیدا ہوئی ہو کم ہی دیکھا ہے کہ کوئی اس کے ناز نخرے اٹھائے اور شاید گھر والوں کے تاثرات دیکھ کر احساس ندامت اسے آ لیتا ہے اور اس کی اپنی بھی کوشش ہوتی ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے بستر چھوڑ کر دوبارہ سے گھر کے کام کاج میں جت جائے۔

جبکہ بیٹا پیدا کرنے والی ماں کے اکثر ناز نخرے بھی اٹھائے جاتے ہیں اور کچھ وہ خود بھی اپنے آپ میں اترا رہی ہوتی ہے کہ وہ بیٹے کی ماں بنی، ایسی عورتیں اکثر کچھ زیادہ دن لیتی ہیں بستر چھوڑ کر واپس گھر کے کام کاج شروع کرنے میں، وہ اپنے تجربات کی روشنی میں مجھے یہ فلسفہ سمجھاتا رہا اور اس دوران ہم وارڈ کے مریضوں کا معائینہ بھی کرتے رہے۔اس وارڈ میں سبھی وہ مریضائیں تھیں جن کے آپریشن سے بچے پیدا ہوئے، ایک مریضہ کا معائینہ کر کے جب میں کچھ آگے بڑھا تو وہی سینئر میل نرس کہنے لگا کہ سر یہ جسے آپ نے ابھی چیک کیا ہے یہ بہت اچھے لوگ ہیں، میں نے پوچھا ایسی کیا خاص بات ہے ان میں؟
تو بولا سر آپ یقین کیجیے انہوں نے بیٹی کی پیدائش پر بھی مٹھائی بانٹی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  سندھ کا ڈھکن وزیراعلیٰ ۔۔ دے گالی

مجھے پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر کے اس علاقے کے ہسپتال میں کام شروع کئے زیادہ عرصہ نہ ہوا تھا اور مجھے ابھی اس وارڈ میں کام کرتے زیادہ دن نہ گزرے تھے، میرے لئے اکیسویں صدی میں بھی یہ سب باتیں سننا انتہائی حیران کن تھا، میرے نزدیک Gender Discrimination نامی بیماری پہ کافی حد تک قابو پا لیا گیا تھا، لیکن یہ سب سن کر مجھے اپنی غلط فہمی کا احساس ہوا۔

اور یہ احساس تو آج یقین میں بدل گیا کہ ہمارا معاشرہ ابھی تک اس خطرناکGender Discrimination نامی بیماری کا بری طرح شکار ہے، جب آج مجھے دوران ڈیوٹی اچانک ایک Attendant بلانے آیا کہ ہمارے مریض کی طبیعت تشویشناک ہے آ کر دیکھیے، میں ان کے مریض تک پہنچا تو معلوم ہوا کہ ان کے ہاں دو دن پہلے آپریشن کے ذریعے بیٹی پیدا ہوئی ہے، اور یہ ان کے ہاں تیسری بیٹی پیدا ہوئی ہے، آج اس نوزائیدہ بچی کی حالت کافی خراب ہے وہ بہت اکھڑے اکھڑے سانس لے رہی ہے، میں نے بچی کی حالت دیکھی تو پوچھا کب سے اس کی ایسی طبیعت ہے تو ایک ادھیڑ عمر خاتون جو غالباً اس بچی کی دادی تھیں اور اسے گود میں اٹھائے ہوئے تھیں، بولیں شام سے ہی ایسی ہے، میں نے کہا کہ آپ کو اب رات کے اس پہر یہ بات بتانے کا خیال آیا پہلے کیوں نہیں بتایا، خیر حالت بہت خراب ہے اس بچی کو فوری Peads ڈیپارٹمنٹ لے کر جائیں یہاں اس کی سہولت موجود نہیں آپ کو سڑک پار سامنے والے ہسپتال جانا پڑے گا، وہاں یہ سہولت موجود ہے، جلدی کیجئیے!

یہ سننا تھا کہ اماں جی نے آہستہ آہستہ ایک سویٹر اتارا دوسرا پہنا، پھر وہ اتار کر پہلا دوبارہ پہنا، چادر اوڑھی، اور آہستہ آہستہ کمرے سے باہر نکلیں، باہر ان کا بیٹا یعنی اس بچی کا باپ کھڑا موبائل فون میں مصروف اماں جی کا انتظار کر رہا تھا، کچھ دیر اماں جی کوریڈور میں کھڑی ہوئیں اور واپس کمرے کو چل پڑیں جیسے کچھ بھول گئیں ہوں، وہ چیز لی اور آہستہ آہستہ چلتے میرے پاس آئیں اور پوچھنے لگیں کہ ان کی بہو کتنے دنوں میں ہسپتال سے ڈسچارج ہو گی، میں نے چڑ کر کہا کہ پہلے اس چھوٹی بچی کو تو جا کر چیک کروائیں اس کی حالت دیکھیں، آپ تو جیسے جان بوجھ کر دیر کر رہی ہیں، وہ بولیں جی جی ادھر ہی جا رہی ہوں اور آہستہ آہستہ کبھی رکتے کبھی چلتے اور پھر فون پر کسی سے باتیں کرتے کوریڈور سے نکل گئیں، ہسپتال سٹاف سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا عجیب خاتون ہیں اتنی دیر کر رہی ہیں تو ایک نرس بولی کہ سر کچھ ہفتے پہلے ان کے دوسرے بیٹے کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تھا اس کی طبیعت ایک دن خراب ہوئی تو انہوں نے پورا ہسپتال سر پہ اٹھا لیا تھا، ابھی ہم یہی باتیں کر رہے تھے کہ کچھ دیر بعد واپس لوٹیں تو کہنے لگی ڈاکٹر صاحب میں ابھی ہسپتال کے دروازے تک پہنچی تو دیکھا بچی بالکل سانس نہیں لے رہی تو سوچا واپس چل کر آپ کو دیکھاتی ہوں کہ زندہ بھی ہے یا مر گئی؟
میں نے نوزائیدہ بچی کو دوبارہ چیک کیا، اور کہا کہ
” یہ بچی اب مر چکی”
انہوں نے بچی کو کمبل میں لپیٹا اور یہ کہتی چل دیں کہ جو اللہ کی مشیت۔۔۔۔۔۔۔۔

حالیہ بلاگ پوسٹس