Qalamkar Website Header Image

مجبوریوں کے مارے لوگ

"یار اپنا موبائل دینا، مجھے ایک چھوٹی سی کال کرنی ہے” راشد کے روم میٹ اسد نے اسے کہا۔
"میرے پاس بیلنس نہیں ہے”، راشد نے جواب دیا

"کبھی اس میں بیلنس بھی ڈلوا لیا کرو شیخ صاحب” ، اسد نے طنزیہ انداز میں کہا اور راشد پھیکی سی مسکراہٹ دکھا کر چپ ہوگیا۔
کل یکم تاریخ تھی یعنی تنخواہ ملنے کا دن اس لئےکمرے میں بیٹھے پانچوں روم میٹ کل رات کا کھانا کسی ہوٹل میں کھانے کا پروگرام بنا رہے تھے۔

راشد نے حسب معمول پروگرام میں شریک ہونے سے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ میرے معدے میں تکلیف ہے جسے باقی چاروں روم میٹس نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ قبول کر لیا۔

کیشئر نے راشد کا نام اور کارڈ نمبر پکارا تو راشد بوجھل دل کے ساتھ آگے بڑھا اور مبلغ چودہ ہزار روپے تنخواہ وصول کرلی۔
کمرے میں اکیلا بیٹھا وہ دل ہی دل میں ادائیگیوں کا تخمینہ لگا رہا تھا۔ دوکان والے کا ادھار، دو بہنوں اور ایک بھائی کی سکول کی کتابیں ، امی کی دوائیاں، گھر کا کرایہ اور اپنے ایک دانت کی روٹ کینال جس میں پچھلے دو ماہ سے بہت تکلیف تھی۔طلب رسد سے زیادہ تھی ، اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ان میں سے کون سی چیز چھوڑ دے کہ آمدنی اور اخراجات برابر ہو سکیں۔

یہ بھی پڑھئے:  پانی پانی کرگئی مجھ کو ’جاپانی ‘کی یہ بات - گل نوخیز اختر

بالآخر اس نے فیصلہ کیا کہ دانت کے درد کو ایک ماہ مزید برداشت کر کے روٹ کینال والے چودہ سو روپے بچائے جا سکتے ہیں۔
کمرے میں حبس تھا ، وہ اٹھا اور کھڑکی کے پٹ کھول کر کھڑا ہوگیا تا کہ تازہ ہوا اپنے پھیپھڑوں میں انڈیل سکے۔
باہر گلی میں اس کے روم میٹس اور دیگر دو کولیگز کھڑے باتوں میں مصروف تھے ، اپنا نام سن کرراشد چونکا اور ذرا توجہ سے ان کی باتیں سننے لگا۔

اسد بولا ، "یار یہ راشد تو پرلے درجے کا کنجوس ہے ، کبھی ایک کپ چائے تک تو پلائی نہیں اس نے ، پیسے جیب سے نکالتے ہوئے جان جاتی ہے اس کی” ۔ "تم چائے کی بات کرتے ہو ، اس کے جوتوں اور پینٹ کی حالت دیکھی ہے ، اس سے اچھی حالت میں تو لنڈے کا سامان مل جاتا ہے”، دوسرا روم میٹ بولا۔
کھڑکی میں کھڑے راشد کا دل دکھ اور صدمے سے نڈھال ہو گیا اور دو آنسو چپکے سے اس کی آنکھوں کی دہلیز پار کر گئے۔

Views All Time
Views All Time
417
Views Today
Views Today
1

حالیہ پوسٹس

سعادت حسن منٹو کی بلیک اینڈ وائٹ تصویر

منٹو بنام طارق جمیل

از عالم بالا ڈئیر مولانا! امید ہے خیریت سے ہو ں گے۔ کافی دنوں سے سوچ رہا تھا خط لکھوں۔ خط لکھنے کی ایک وجہ تو حوروں کا اصرار تھا۔

مزید پڑھیں »
شازیہ مفتی، قلم کار کی افسانہ نگار اور کالم نگار

کنفیشن باکس

دسمبر کی برف میں گم ایک آواز، ایک ریکارڈنگ، اور ایک ان کہی پکار جو برسوں بعد پھر سنائی دی۔ کبھی جوابی کال نہ کی، آج جواب بھی بدل چکا

مزید پڑھیں »