زیرِ نظرتصویر، عصرِ حاضر کے عبداللہ حسین(عبداللہ حسین کا خطاب حد درجہ مشکل تحاریر لکھنے پر دیا گیا) سماجی شخصیت، جناب محترم عامر حسینی صاحب کی ہے۔۔ ملکی اور غیر ملکی ایجنسیاں ایک عرصے سے اس ٹوہ میں لگی ہوئی تھیں کہ وہ کون سی گھڑی ہوتی ہے جب سر عامر مسکرائے پائے جاتے ہیں۔ ہم نے سر عامر کی مسکراہٹ پر مختلف سیاسی پارٹیوں سے انکا موقف جاننے کی کوشش کی تو پہلے پہل، سب نے ہمارے نمائندے کو اے۔ آر۔ وائی کا رپورٹر سمجھتے ہوئے ، اس خبر کو سرے سے ہی جھٹلا دیا،پھر یہ تصویر ثبوت کے طور پر سب کو دکھائی گئی تو وزارتِ اطلاعات و نشریات نے اسے اصل تصویر ماننے سے ہی انکار کردیا اور یہ کہا کہ مذکورہ تصویر فوٹو شاپڈ ہے ۔ اس اچانک پیدا ہونے والی صورتِ حال پر نمائندے نے ہیڈ آفس فون کر کے اطلاع دی کہ کوئی بھی اس تصویر کو حقیقی ماننے کو تیار نہیں۔ جب ہیڈ آفس نے تفصیل پوچھی تو منسٹری آف انفارمیشن نے کافی تگ و دو کے بعد سندھ کے سابق وزیرِ اعٰلی سائیں قائم علی شاہ صاحب کو اسلام آباد بلوا کر کہا کہ یہ دیکھیں یہ رپورٹر اور اسکا ادارہ کتنی بڑی جھوٹی خبر چھاپ رہے ہیں (اس صورتحال پر ہمارا نمائندہ بے حد حیران تھا کہ الہی! یہ ماجرہ کیا ہے؟) بلاخر سائیں جی گویا ہوئے کہ حکومتی موقف سو فیصد درست ہے کیونکہ میں نے اپنے لڑکپن میں آخری بار محترم عامر حسینی کو مسکراتے ہوئے دیکھا تھا اور اس کے بعد سے لیکرآج تک عامر صاحب نے مُسکرانے پر خرچ ہونیوالی انرجی بچا کر رکھی ہوئی ہے حتی کہ رویتِ ہلال کمیٹی اپنی تمام تر توانائیوں اور وسائل کو بروئے کار لا کر بھی کسی قسم کی ہنسی کا سراغ لگانے میں ناکام رہی ہے ۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے، ہیڈ آفس کو ایک اسٹامپ پیپر جمع کروانا پڑا، جس پر لکھا تھا کہ ادارے کا پی۔ ٹی۔ آئی کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق نہیں ہے ۔ ادارہ نہ تو فوٹو شاپ ٹیکنالوجی سے واقف ہے اور نہ ہی فیس بُک پر دکھائی جانیوالی کے ۔پی ۔کے صوبہ کی ترقی میں ادارہ ہذا کا کوئی ہاتھ ہے۔تب کہیں جا کر ادارہ ہذا کو سروے کرنے کا اجازت نامہ ملا۔ اس سروے کے نتیجے میں موصول ہونے والے جوابات پیش خدمت ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارا رابطہ جب نون لیگ کی اعلی قیادت سے ہوا تو اُنکا کہنا تھا کہ ضرور انکے رابطے اعٰلی عدلیہ کے معزز جج صاحبان سے ہیں اور یہ ہمارے خلاف ہونیوالے متوقع فیصلے پر مُسکرا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی والوں نے البتہ قدرے مختلف بات کی۔ اُنکے ترجمان نعیم الحق عرف میسجزز والا نے فرمایا کہ عامر صاحب ،پرویز خٹک کی صحت اور اُنکی دھمکیوں کے بارے میں سوچ کر مُسکرا رہے تھے۔ پییپلزپارٹی کے ترجمان جناب مولا بخش (سلطان راہی مرحوم یاد آ جاتا ہے) نے اپنی گھنی مونچھوں کے نیچے سے زور دار آواز میں فرمایا کہ عامر صاحب کے مُسکرانے کی وجہ زرداری صاحب کی پانچ سالہ کارگردگی اور پھر صیح سلامت مُلک سے فرار ہے۔ ایم کیو ایم کے ترجمان (بہت سے تھے) نے فرمایا کہ عامر صاحب کی بوری تیار کرواتے ہیں کیونکہ یہ بھائی پر مُسکرا رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے سراج الحق نے کہا کہ یہ میری سیاسی بصیرت ، علمی گفتگو اور درویشانہ طرزِ زندگی اور نواز شریف کو کٹہرے میں لاکھڑا کرنے والی چالوں کو اپنانا چاہتے ہیں اور یہ مسکراہٹ خالص حسرتانہ ہے۔ اتنے زیادہ موقف جان لینے کے بعد جب ہمارا نمائندہ سر عامر کے سیکرٹری کم دوست، جناب ملک قمر اعوان صاحب کے پاس پہنچا تو اس پُر اسرار ہنسی کا راز جان کر اُن کا اپنا ہاسہ نکل گیا۔۔۔ ملک صاحب نے فرمایا کہ سرعامر کی مسکراہٹ کے پیچھے اُنکی صد سالہ حسرتِ ناتمام کی تکمیل تھی جو اُنکی زوجہ محترمہ کی کال کے آخری الفاظ سے پوری ہوئی جس میں اُنہوں نے فرمایا کہ "عامر ! میں چند دنوں کے لیئے میکے جا رہی ہوں۔”
ذیشان حیدر نقوی کیمسٹری میں ماسٹرز ڈگری ہولڈر ہیں۔ لیکن کمیسٹری جیسے مضمون پڑھنے کے باوجود انتہائی اچھا مزاح لکھتے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn