جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ کوئی راحت آمیز چیز نہیں ہے، آپ خود سوچیں کہ جس چیز کو دیکھتے ہی دماغ میں پہلا آنے والا خیال ہی کوفت سے شروع ہو، وہ چیز کیا ہوگی۔اس پر مزید ظلم یہ ہے کہ لیگ پیس کے بر عکس یہ آپکی پلیٹ میں اکیلے نہیں آتا بلکہ ایک دو یا حسبِ ضرورت تین چار ساتھیوں کو بھی ساتھ لاتا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ زمانہ قبل از حضرت آدم علیہ اسلام، یہ چیز شوق سے بھی کہیں کھائی جاتی ہو، مگر آجکل اس سے زیادہ مُہلک ہتھیار میں نے کوئی نہیں دیکھا۔
گھر میں تو اس سے ملتی جُلتی چیز کو باقاعدہ دھوپ میں رکھ کر سخت اور خطرناک بنایا جاتا ہے، تاکہ بوقتِ ضرورت تمام مقاصد کی تکمیل کی جا سکے۔
میرے ایک جاننے والے کی موت بھی ماتھے میں کوفتہ لگنے سے ہوئی تھی۔ ہوا یوں کہ مرحوم سِول انجینئر تھے اس لیئے گولائی وغیرہ پر زیادہ دھیان دیتے تھے ، ایک بار جب اُنکی بیگم نے کھانا پیش کیا تو مرحوم کوفتے کی گولائی اور سائز پر اعتراض کر بیٹھے ، اعتراض سُننا تھا کہ بیگم نے غصے میں پلیٹ مرحوم کے سر پر دے ماری، اس لمحے خاتون یہ بھول بیٹھی تھیں کہ پلیٹ میں سخت جان کوفتہ بھی ہے۔ ہسپتال جا کر پتہ چلا کہ پلیٹ والی ضرب تو قابلِ علاج تھی، مگر کوفتے کا لگایا ہوا زخم، جان لیوا ثابت ہوا ہے۔
میرا باورچی(میری بیگم نہیں) بھی اس فن میں یدِ طولٰی رکھتا ہے ۔یہاں فن سے مُراد کوفتے بنانا نہیں بلکہ کوفتے کو اس حد تک مضبوط اور پائیدار بنانا کہ اس کے تیار کردہ کوفتے حالتِ جنگ میں افواجِ پاکستان کے حوالے کیئے جا سکتے ہیں جو کہ مارٹر گولوں کا بہترین نعم البدل ثابت ہو سکتے ہیں۔
کوفتے کا ایک ایسافائدہ بھی ہے جس سے آپ ابھی تک یقینا نا واقف ہوں گے۔ آپ کوفتے سے اپنے کسی بھی دیرینہ دشمن سے بدلہ بھی لے سکتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ آپ تعزیراتِ پاکستان کی کسی بھی دفعہ کی زد میں نہیں آئیں گے۔
میں نے بھی ایک دیرینہ دشمن کا حساب چکتا کرنا تھا سو اپنے باورچی سے خاص طور پر اُسکے تیار کردہ مہلک ترین کوفتوں کی فرمائش کی جو اُس نے یہ سمجھتے ہوئے پوری کی کہ صاحب کو شاید زیادہ ہی پسند آ گئے ہیں۔جب وہ دیرینہ دشمن میرے آفس پہنچا تو میں نے کھانا لگوا دیا،اور اپنی پلیٹ تاک کر اُسکے مُنہ کی سیدھ میں رکھی اور جیسے ہی نوالے سے کوفتے کو دبایا تو کوفتہ شاہین میزائل کی طرح اڑتا ہوا سیدھا دشمن کے دانتوں پر جا لگا جس سے دشمن کو جذباتی نقصان کے علاوہ سامنے والے چھ دانتوں کی قربانی دینا پڑی اور میں بھی صاف صاف بے قصور پایا گیا۔
کچھ علاقوں میں تو کوفتے کو باقاعدہ گالی کا درجہ حاصل ہے، اگر آپ کو یقین نہ آئے تو پشاور جا کر کسی کو کوفتہ کہہ کر دیکھیں، آپکے گھر والوں کو آپکی لاش باقاعدہ نسوار زدہ ملے گی۔
کوفتوں کا سب سے موثر استعمال صلیبی جنگوں میں دیکھنے میں آیا تھا جب دشمن کے قلعے مسمار کرنے کے لئے منجنیقوں میں کوفتوں کو ڈال کر پتھروں کی جگہ استعمال کیا گیا تھا تو وہ وہ قلعے بھی مسمار ہوگئے تھے جو انسانی تاریخ میں باقاعدہ ناقابلِ شکست تھے۔
پاکستان میں کوفتوں پر باقاعدہ ریسرچ کرنے کے لئے زرعی یونیورسٹی میں ایک ریسرچ سنٹر کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے، جہاں اس بات پر تحقیق جاری ہے کہ کسطرح کوفت کے ظاہری خدوخال کو تبدیل کیئے بنا اسے انسانی استعمال میں لایا جا سکے۔
طالبانی ریسرچ سنٹر اور بعد ازاں میدانِ عمل میں اس پر کامیاب تحقیق کی جاچکی ہے کہ اگر اسے خود کُش جیکٹ میں بال بیئرنگ کی جگہ استعمال کیا جائے تو اس سے زیادہ لوگوں کو مارا جا سکتا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ کسی بھی میٹل ڈیٹکٹرسے با آسانی گزرا جا سکتا ہے۔
کوفتہ ، واحد ایسی ڈش ہے جس کے بنانے والے سے زیادہ کھانے والا تعریف کا مستحق ہے۔
دیہاتوں میں اکثر بڑی عید کے بعد بچے،گلی محلوں میں کوفتوں سے کھیلتے ہوئے بھی پائے جاتے ہیں۔ شُنید ہے کہ اگلے چند سالوں میں وطنِ عزیز انکی برآمد کے بھی قابل ہو جائے گا۔
ذیشان حیدر نقوی کیمسٹری میں ماسٹرز ڈگری ہولڈر ہیں۔ لیکن کمیسٹری جیسے مضمون پڑھنے کے باوجود انتہائی اچھا مزاح لکھتے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn