سلسلہ کلام کو ہم اپنی ابتدائی تعلیم سے شروع کرتے ہیں، دراصل ہمارے بزرگوار کو اللہ جانے یہ شوق کہاں سے چڑھ آیا کہ ہمیں سیاستدان بنانا ہے، سو انہوں نے ایک لمحہ ضائع کیئے بغیر ہمارے کھیلنے کودنے کی عمر کے باقی دن اسکول کی نذر کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہاں پر ہم آپکو کچھ اپنے بارے میں بتاتے چلیں کہ ہم زبان اور ضد کے بہت پکے ہیں، ہوا یوں کہ بچپن میں ہماری کسی ضد پر ہمارے بابا جان نے غصے میں ہمیں کہہ دیا کہ انسان بنو، اور ہم نے جوابا کہا کہ ہم کبھی بھی انسان نہیں بنیں گے، سو ہم اپنی بات پر آج بھی قائم ہیں۔
سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ ہمیں بچپن سے ہی اعٰلی تعلیم کے لیئے شہر بھیج دیا گیا،وہاں ہم نے کچھ اور تو نا سیکھا مگر فرنگی زبان کے چند عام استعمال کے لفظ سیکھ لیئے اور انکو آزمانے کا فیصلہ کیا،
سو جب ہم گھر تشریف لائے تو ہماری یوں آؤ بھگت کی گئی جیسے ہمارے مُلک میں عرب شہزادوں کی کی جاتی ہے، اوپر سے اُن دنوں مُلک میں ٹین پرسنٹ پرافٹ کی بنیاد پر تمام کاروبار چل رہے تھے، ہم بھی اسی قوم سے تھے ، سو سوچا کیوں نا پرافٹ کی یہ شرح مزید بڑھائی جائےسو جب ہم سے ہمارے بابا جان نے پوچھا کہ کوئی چیز تو نہیں چاہیے تو ہم نے کہا کہ ہماری اِنک پاٹ ٹوٹ گئی ہے ، ہمیں وہ چاہیے، بابا جان بولے کتنے کی آتی ہے، تو ہم نے کہا دس ہزار کی، بولے پندرہ ہزار لے لو، لیکن لینا اچھی کوالٹی کی، برادری میں ناک نا کٹ جائے، پھر ہم گویا ہوئے کہ ہماری میتھمیٹکس کی ورک بُک بھی فِنش ہو گئی ہے وہ بارہ ہزار کی آئے گی، اسکے بھی پندرہ ہزار دیئے اور تاکید کی کہ لاشاری خاندان کی ناک نا کٹنے پائے۔
دن گزرتے گئے اور ہماری تعلیم اور ہمارا کاروبار روز بروز بڑھتے گئے، اتنا کہ ایک دن ہم نے بھی لندن میں پراپرٹی خرید لی۔ ہمارا جادو اُس وقت سر چڑھ کر بولا جب ہماری قیادت میں ہماری ٹیم عالمی کالج کرکٹ ٹورنامنٹ کی فاتح ٹھہری، بس پھر اُس وقت ہمیں یقین ہو گیا کہ ہمیں اس مُلک کا سربراہ بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
اس دوران ہمارے کالج کی انتظامیہ نے ہماری تعلیم کے ساتھ والہانہ محبت کو محسوس کر ہی لیا کہ یہ انسان تو کالج کے ساتھ ایسے چمٹ گیا ہے جیسے پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ بوڑھے کھلاڑی اور تب تمام اساتذہ نے مل کر ہم پر یوں محنت کی جیسے دولت کمانے کو اکثر شاہی خاندان کرتے ہیں اور ہم پاس ہو ہی گئے۔
اسکے بعد اگلا مرحلہ تھا مزید اعٰلی تعلیم کا۔ اس معاملے میں ہمارے بابا جان کا وہی کردار ہے جو ہمارے مُلک میں اسٹیبلشمنٹ کا، یعنی جو فیصلہ وہ کریں گے وہی ہوگا۔۔ انہوں نے فیصلہ صادر کیا کہ ہم بی زیڈ یومیں ہی پڑھیں گے، ہم نے یوں مریل سا اعتراض کیا جیسے جنوبی پنجاب کے سیاسی نمائندے کسی حق تلفی پر کرتے ہیں۔
خیر اللہ اللہ کرکے جب ہم یونیورسٹی میں وارد ہوئے تو ہماری حالت تھر کے اس باسی کی سی تھی جو غلطی سے اسلام آباد دیکھ لے، اتنی ساری خواتین ایک ہی مقام پر اکٹھی یا تو ٹی وی پر عامر لیاقت کی افطاریوں میں دیکھی تھیں یا پھر یہاں آکر، مگر ان میں ایک دو پلس پوائنٹ بھی تھے وہ یہ کہ ایک تو یہ بولتی بھی تھیں اور دوسرا یہ بات بات پر روتی نہیں تھیں۔
جب پہلی بار ہماری کسی ایک کلاس فیلو نے بسلسلہ نوٹس ہمیں مخاطب کیا تو ہمیں ایسی خوشی ملی جیسے کسی پاکستانی صدر کو امریکی ہم منصب سے بات کر کے ہوتی ہے، اور واقعی ہمارا رسپانس بھی ایسا ہی تھا، یعنی کچھ سمجھ نا آئی کہ کیا کہنا ہے اور کیا کرنا ہے، مجبورا جیب میں رکھی ہوئی پرچی نکال کر اپنی کلاس فیلو کے سوالوں کے جواب دیئے۔
ملکی ترقی کی رفتار کی طرح ہماری تعلیم بڑھتی رہی اور کرپشن کی طرح ہمارا تجربہ، اور یوں کرتے کرتے ہم چوتھے سمسٹر میں آن پہنچے تو مسئلہ درپیش ہوا ہماری اسپیشلائزیشن کا، تو ایک بار پھر ہمیں کمزور حکومت کی طرح اسٹیبلیشمنٹ یعنی بابا جان سے رابطہ کرنا پڑا، ہم نے سوچا کیوں نا اس بار اپنے مطالبات پیش کرنے سے پہلے ہی دھرنا دے دیا جائے، سو ہم نے ایمپائر یعنی اماں جان کے کہنے پر دھرنا دے دیا، اور سوچا کہ ہم جابر حکمران کو گھٹنوں کے بل جھکنے پر مجبور کر دیں گے، لیکن ہماری یہ خوش فہمی اسوقت ہوا ہو گئی جب ایمپائر نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساز باز کر کے ہمیں اسقدر مجبور کر دیا کہ ہم نے کہا کہ بے شک ہمارے مطالبات نا مانو، مگر ہمیں عزت سے منا تو لو، بالآخر ہمارا یہ مطالبہ مان کر ہمیں اپنے ساتھیوں کی نظر میں شرمندہ ہونے سے بچا لیا گیا۔
اب جب ہم اپنے مقدر کا فیصلہ سُننے پہنچے تو بابا جان نے حکم داغا کہ ہمیں انٹامولوجی ہی پڑھنی ہے ہم نے وجہ پوچھی تو بابا جان گویا ہوئے کہ سیاستدان بن کرتم نے کیڑے مکوڑوں پر ہی حکومت کرنی ہے، لہذا انکے اطوار و حرکات نوٹ کرو، بابا جان کی خواہش کو ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی انتطامیہ نے بااحسن طریق یوں پورا کیا کہ ہمارے ہاتھوں میں کتابوں کی بجائے انسکٹ بکس دے کر کہا کہ جاؤ کیڑے مکوڑے پکڑو اور حکومت کرو
ذیشان حیدر نقوی کیمسٹری میں ماسٹرز ڈگری ہولڈر ہیں۔ لیکن کمیسٹری جیسے مضمون پڑھنے کے باوجود انتہائی اچھا مزاح لکھتے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn