دوست کو “کمینہ” ہونا چاہیے کیونکہ یہ اس کا پیدائشی حق ہے، جو “کمینہ” نا ہو، سمجھیں کہ دوست ہی نہیں ہے۔ “کمینگی” بھی چائے میں چینی کی طرح ہوتی ہے، کم ہوتو اچھی نہیں لگتی اور زیادہ ہو تو پھر بالکل بھی اچھی نہیں لگتی۔
اور اگرچینی بالکل نا ہو تو پھر وہ چائے ہی نہیں ہوتی۔اسی طرح دوست کو مناسب حد تک “کمینہ” ہونا چاہیےلیکن بندہ اتنا “کمینہ” بھی نا ہو جتنا ملک قمر عباس ہے۔
آپ نے اکثر احباب کو کہتے سُنا ہوگا کہ یار سالی سینے میں یوں اتری جیسے سیون ایم ایم کی گولی اترتی ہے۔ بالکل اسی طرح قمر عباس بھی دوستی کے تمام معیاروں پر یوں پورا اُترا جیسے غریب بندے کے گھر یوٹیلیٹی بلز اترتے ہیں، یعنی بغیر وجہ کے اور بہت سارے۔
اصل معنوں میں مجھے اس کُت خانے یعنی فیس بُک پر گھسیٹ کر لانے والا بھی یہی شخص ہے،ورنہ پہلے میں اچھا خاصا عزت دار بندہ تھا۔
ملک قمر صاحب کی ہمہ جہت شخصیت میں پائی جانیوالی ایک دو خوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ملک صاحب، لکھتے بھی ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ابھی تک اٹھائے کیوں نہیں گئے۔
ملک صاحب کی دوسری اور آخری خوبی ان کا کبھی نا ختم ہونیوالا قد ہے، ملک صاحب اذیت ناک حد تک طویل ہیں، اتنے لمبے ہیں اتنے لمبے ہیں کہ قانون کےوہ لمبے ہاتھ جو ڈیڑھ سو بِل نا دینے پر ہمارے دروازے تک پہنچ جاتے ہیں، وہ صرف ملک صاحب کی ٹھوڑی تک ہی پہنچ پاتے ہیں۔
تمہارا رشتہ لیتا کوئی نہیں تھا اور مجھے رشتہ دیتا کوئی نہیں تھا والا محاورہ ہی ہماری دوستی کی اصل وجہ بنا۔یعنی نا کوئی اسے مُنہ لگاتا تھا اور نا کوئی مجھے۔پھر ہم نے ایک دوسرے کو مُنہ لگانا شروع کر دیا (فرانسیسی باشندوں کی طرح نہیں) ویسے مُنہ لگانے سے یاد آیا، ہمارے مولوی حضرات بھی عجیب ہیں کہ گوروں کی باقی ساری حرکات کو تو معیوب سمجھتے ہیں لیکن مُنہ لگانے کو کارِ ثواب جانتے ہیں۔۔ پریکٹیکل اورئینٹیشن کے لیے انٹرنیٹ پر کافی مواد موجود ہے(اب مجھ سے لنکس مانگ کر شرمندہ نا کیجئے گا)۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی ملک قمر عباس کی “کمینگی” کی، اوہ معذرت دوستی کی، تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ اٹھارہ جنوری کو ملک صاحب کی سالگرہ تھی، بہت ناراض ہوئے مجھ پر کہ ساری دنیا (کل ملا کر تقریباََ چھ یا سات لوگوں) نے مجھ سالگرہ کی مبارک دی ہے تم نے کیوں نہیں دی تو میں نے کہا ،یار ملک دیکھ ، تم خود اچھے خاصے سیانے اور چار پانچ زنانہ آئی ڈیز کے مالک ہو، تم جانتے ہو کہ جب سے یہ کلموہی فیس بُک آئی ہے، جنوری میں پیدا ہونے والے تقریبا تمام لوگ ہی مشکوک ہو گئے ہیں، بلکہ کچھ نے تو باقاعدہ نادرہ میں تاریخ پیدائش تبدیل کروانے کے لیے درخواستیں بھی دائر کر رکھی ہیں۔ تو میں بھی باقی لوگوں کی طرح یہ سمجھا کہ سب جھوٹ ہے،کوئی نہیں ہونی تمہاری سالگرہ۔ تو قمر جھٹ سے بولا کیوں نہیں ہو سکتی میری سالگرہ۔ میں نے کہا اول تو تم پیدا ہو ہی نہیں سکتے(کیونکہ اسطرح کی خود رو جھاڑیاں اُگتی ہیں پیدا نہیں ہوتیں، ثبوت کے طور پر ملک قمر صاحب کو مل کر میرے دعوے کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ ملک صاحب اتنے طویل ہیں کہ گاڑی کی چھت پر کھڑا ہو کر گلے ملا جا سکتا ہے۔۔ اب گاڑی کی سلیکشن آپ کے اپنے قد پر منحصر ہے)، بالفرض تم پیدا ہوئے بھی ہوئے تو یہ کام ایک دن میں مکمل نہیں ہو سکتا (آج تیرہ دن بعد اسے سالگرہ وش کرنے کی وجہ بھی یہی ہے) اس لیے میں کیسے مان جاؤں کہ تمہاری سالگرہ اٹھارہ جنوری ہے۔
اس پر قمر عباس بولا کہ مجھے پتہ تھا کہ تم یہ “کمینگی” کرو گے، لو یہ دیکھو میرا برتھ سرٹیفیکٹ، اس پر اٹھارہ جنوری ہی درج ہے۔
میں بولا یار تاریخ تو یہی لکھی ہے مگر اب یہ نہیں پتہ کہ کس سال کا واقعہ ہے یہ۔ قمر بولا سالگرہ سال دیکھ کر نہیں بلکہ تاریخ دیکھ کر وش کی جاتی ہے۔
میں نے ملک قمر کا دل رکھنے کے لیئے حامی بھر لی اور قریب المرگ دائی یعنی گائناکالوجسٹ(ڈاکٹر اللہ رکھی) سے اس مسئلے کا حل دریافت کیا۔
انہوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بتایا کہ بیٹا، بندے کے موجودہ قد کو آٹھ سے ضرب دے کر پانچ سے تقسیم کریں پھر اس میں آٹھ اعشاریہ صفرآٹھ جمع کر دیں۔جو جواب آئے اس کو جواب ہی سمجھیں۔
جب میں نےیہ سارا طریقہ ملک صاحب کی شخصیت پر لاگو کیا تو جواب آیا اٹھارہ دن، یعنی ملک صاحب کو اس دن میں قدم رنجا فرمانے میں اٹھارہ دن لگے۔
سو مائی ڈئیر ملک قمر عباس اعوان عرف شدید کنوارے،
ہیپی برتھ ڈے ٹو یو
ذیشان حیدر نقوی کیمسٹری میں ماسٹرز ڈگری ہولڈر ہیں۔ لیکن کمیسٹری جیسے مضمون پڑھنے کے باوجود انتہائی اچھا مزاح لکھتے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn