دیہات کی زندگی بھی بڑی عجیب ہوتی ہے چھوٹی سی عمر کے بچے ماں باپ کے نقش قدم پر
چلتے ہوئے خود بخود ہی سارے کام کرنے لگتے ہیں، جانوروں کا چارا ڈالنا ہو یا گوبر اٹھانا یا پھر کھیتوں میں کام کرنا ہو ۔ مجھے یاد ہے کہ پانچ سال کی عمر میں، میں بھی یہی کام کرتی تھی. وہاں ہمارے لیے سب سے بڑی عیاشی چھوٹی اور بڑی عید اور شب برات پہ پٹاخے چلانے کے علاوہ سال میں ایک بار خواجہ سراؤں سے ملاقات بھی تھی..پورے سال میں جن کے گھر کسی لڑکے کی شادی ہوئی ہو یا بیٹا پیدا ہوا ہو تو ان کے گھر میں ان خواجہ سراؤں (کھسروں ) کا ناچنا لازمی ہوتا تھا . اور مزے کی بات یہ کہ ہمارے گھر کے ساتھ امام مسجد کا گھر ہے اور ان لوگوں کا قیام بھی وہیں ہوتا تھا .تو ہم سب گاؤں کے بچوں اور بڑوں کی خوشی دیدنی ہوتی تھی جب پتا چلتا کہ خواجہ سرا چار یا پانچ دن کے لیے آئے ہیں.جلدی جلدی اپنے ذمے کے کام ختم کرنا اور پھر جس گھر میں ان کا ناچنا طے پاتا تھا وہاں وقت سے پہلے پہنچنا اور کوشش کرنا کہ چھت پہ بیٹھ کر دیکھیں تاکہ منظر صاف نظر آئے.کیا سماں ہوتا تھا نور جہاں کے پنجابی گانے اور گھنگھرو پہنے ناچتے بہت خوبصورت لگتے تھے .زیادہ پیسے دے کر فرمائشی گانے بھی لگوائے جاتے اور دوگھنٹے تک یہ سارا سلسلہ چلتا .گھر والے رشتے دار اور محلے والے پیسے وار کر خواجہ سراؤں کو دیتے اور جب وہ ناچ گانا ختم کرکے جانے لگتے تو گندم اور مکئی کے ساتھ کچھ نقدی بھی دی جاتی اور جو لوگ ذرا امیر ہوتے وہ کوئی بکری یا بچھڑا بھی دے دیا کرتے تھے ..کیا خوب سماں ہوتا تھا .مجھے ان کے پاؤں میں پہنے گھنگھرو ہمیشہ ہی بہت اچھے لگتے تھے اور کئی بار منت سماجت کر کے ان سے کچھ دیر کے لیے گھنگھرو لیے اور پہن کر بھی دیکھے .سارے گاؤں کے لوگ ان خواجہ سراؤں کی بہت عزت کرتے اور نہایت احترام سے ان کو رخصت کرتے تھے.ان کو ہمارے بڑے امن کے سفیر بھی کہا کرتے تھے .یہ سب دیکھتے دیکھتے بڑے ہوگئے اور شادی ہو کر شہر میں آنا ہوا تو یہاں کے تو حالات ہی بہت مختلف دیکھے .خواجہ سرا بچارے بازاروں میں بھیک مانگتے ہیں نہ ان کی پڑھائی کا کوئ انتظام نہ ان کی نوکری کا کچھ پتا .بلکہ کچھ لوگ تو شائد ان کو انسان سمجھنے کو بھی تیار نہیں.اور پچھلے کچھ عرصے میں تو خوآجہ سراؤں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جا رہا ہے کہ وہ پشاور کے ہسپتال میں آخری دم لیتے خواجہ سرا پہ لڑائی ہو کہ اسے زنانہ وارڈ میں لیکر جانا ہے یا مردانہ میں.یا پھر ججا بد معاش نے جو بےعزتی کی اور اپنے پاؤں تلے روندا.تو مجھے آپنا گاؤں اور وہاں کے ان پڑھ لیکن انسانیت کی تعظیم کرنے والے لوگ بہت یاد آئے کہ وہ کتنے اچھے ہیں جو خواجہ سراؤں کو بھوکا نہیں مرنے دیتے اور ان کی عزت نفس بھی مجروح نہیں ہونے دیتے اور ایک طرف پڑھا لکھا جاہل طبقہ ہے جو اپنے علاوہ کسی کو انسان ہی نہیں سمجھتا .
ہم سب کو بھی اس بارے میں سوچنا چاہیے کہ اگر ہم اپنے گھروں یا دفاتر میں ان لوگوں کے لیے بھی کام کی گنجائش نکالیں اور خواجہ سراؤں کو دیکھ کر ہنسنے اور کسی کو کھسرا ہونے کے طعنے دینے سے گریز کریں تو یہ لوگ بھی بہتر زندگی گزار سکتے ہیں.
ڈاکٹر زری اشرف ایک ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ سوشل ورکر بھی ہیں۔ اور اس کے علاوہ مطالعہ کی بیحد شوقین۔ قلم کار کے شروع ہونے پر مطالعہ کے ساتھ ساتھ لکھنا بھی شروع کر دیا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn