خیر محبت کو تو رکھیں ایک طرف نفرت کے ساتھ جینا اور ایک ساتھ رہنا بہت مشکل ہے۔یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ اکثر میاں بیوی ایک ساتھ تو رہتے ہیں بظاہر رشتہ بھی برقرار رکھتے ہیں اور شائید کچھ لوگوں کی نظر میں آئیڈیل جوڑا بھی نظر آتے ہیں جبکہ بہت سے خاندانوں میں یہ معاملہ نظر کچھ اور آتا ہے اور حقیقت میں بہت بھیانک صورتحال ہوتی ہے۔معاشرے کے رویے، خاندان کے بھرم اور بچوں کی خاطر بہت سے شادی شدہ لوگ نا چاہتے ہوئے بھی ایک ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔عزت اور پیار تو دور کی بات بہت سے لوگ تو ایک دوسرے کا وجود بھی برداشت نہیں کرتے پر پھر بھی ساتھ رہتے ہیں کہ عمومی طور پر دونوں اور خاص کر عورت کے لیے مرد کو چھوڑنا یا اپنی پسند کا اظہار کرنا بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔شادی کے بعد عورت کواس کے میکے والے کم ہی برداشت کرتے ہیں چاہے وہ سسرال میں کتنی ہی مشکل زندگی کیوں نا گزار رہی ہو۔
بس جی آپ نہ الگ ہو سکتے ہیں نا طلاق یا خلع کا مطالبہ کر سکتے ہیں کہ اب آپ کے بچے ہیں۔ صرف بچوں کی خاطر ایک ساتھ رہنے والے میاں بیوی کی لڑائیاں اور جھگڑے بات بات پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش بچوں کی شخصیت تباہ کردیتی ہے۔جن بچوں کی خاطر میاں بیوی ناچاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں وہی بچے بیچارے اس رشتے میں سب سے زیادہ تکلیف اٹھاتے ہیں۔
یہ بات بھی سچ ہے کہ ایک جب بچے ہو جائیں تو اپنے بارے میں سوچنا بہت مشکل ہو جاتا ہے پر یہ بھی حقیقت ہے کہ آخر آپ ناپسندیدہ بندے کو کب تک دھوکہ دے سکتے ہیں؟ کب تک بہن بھائیوں، معاشرے اور بچوں کی خاطر اپنی جان کو اپنی خواہشوں کو دبا سکتے ہیں؟ منافقت سے رشتے نبھانے سے کہیں بہتر ہے کہ صاف صاف کہہ دیا جائے کہ اب میرا آپ کے ساتھ گزارا نہیں۔
پر یہ بات نا تو ہمارے لوگ ہضم کرتے ہیں نا ہمارا معاشرہ قبول کرتا ہے۔آخر کب تک ہم لوگ رشتوں کو منافقت اور اداکاری کی بھینٹ چڑھاتے رہیں گے؟کیا کبھی کوئی جوڑا خوشی خوشی اس بات کو مانے گا کہ اب ہم ساتھ نہیں چل سکتے تو سکون سے اپنے راستے الگ کر لیں اور اپنی مرضی سے جئیں؟لیکن ہماری روایات، ہمارا معاشرہ ہمارے رشتے کوئی بھی علیحدگی قبول نہیں کرتا اور اگر کوئی الگ ہو بھی جائے تو طعنے دے دے کر اس کا جینا محال کر دیتے ہیں۔
کوئی مانے یا نا مانے پر میرے ارد گرد بہت سے جوڑے زبردستی ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔کہاں دوسرے کا وجود بھی برداشت نہیں ہوتا دوسرے کی سانس تک اچھی نہیں لگتی پر اسی کے ساتھ سونا ہے اسی کے ساتھ نبھانا ہے یہ لوگ علیحدگی کی صورت میں جینے نہیں دیں گے۔ایسے حالات میں ایک ساتھ رہ کر کیا ہم ٹھیک کر رہے ہیں؟ہم اپنے بچوں کو کیا ماحول اور تربیت دے رہے ہیں؟اور جب زندگی ایک بار ملی ہے تو اسے ایک دوسرے کی انا اور معاشرے کے رویے کی بھینٹ کیوں چڑھا رہے ہیں؟آخر اس اذیت سے نکلنے کا کوئی تو حل ہو گا۔۔۔
ڈاکٹر زری اشرف ایک ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ سوشل ورکر بھی ہیں۔ اور اس کے علاوہ مطالعہ کی بیحد شوقین۔ قلم کار کے شروع ہونے پر مطالعہ کے ساتھ ساتھ لکھنا بھی شروع کر دیا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn