اچھا ہوا زینب مر گئی کیونکہ جتنے لوگ اس وقت کسی بھی صورت زینب کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں ان میں سے کتنے لوگ ہوتے جو زخمی زینب کا علاج کرواتے، کتنے لوگ اس کا معاشی اور معاشرتی طور پر ساتھ دیتے ؟یہی لوگ اور یہی معاشرہ زینب کا جینا دوبھر کر دیتا۔ اگر زینب زندہ رہتی تو وہ علاج کے ایک لمبے طریقہ کار سے گزرتی، بہت سی تکالیف برداشت کرتی ،کتنی چبھتی اور طنزیہ نظروں کا سامنا کرتی۔۔یہی لوگ اس کے خاندان کے لیے ریپ کو طعنہ بنا دیتے اور معاشرتی بائیکاٹ ہوتا۔۔
اچھا ہوا زینب مر گئی کہ یہی لوگ اس کی بہنوں کا رشتہ مانگتے ہوئے سو بار سوچتے ،یہی جو آج زینب کے انصاف کے لیے تگ و دو کرتے نظر آتے ہیں ساری عمر زینب کے خاندان کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ۔۔۔زینب کو ایسی قاتل نظروں سے دیکھتے کہ وہ جیتے جی مر جاتی۔۔
چلیں زینب صحتیاب ہو کر سکول جانا شروع کر بھی دیتی تو اس کے ساتھ کیا سلوک ہوتا۔۔کیا کوئی سکول زینب کو ماڈل طالبہ کے طور پر داخلہ دیتا؟ پہلے تو سکول انتطامیہ انکاری ہو جاتی زینب کو داخل کرنے سے اور پھر اگر داخل ہو بھی جاتی تو کیا ساتھی طلباہ کا رویہ نارمل ہوتا زینب کے ساتھ؟ کیا کوئی لڑکی زینب کی سہیلی بننا پسند کرتی؟کیا کسی بچی کی ماں اپنی بیٹی کو زینب کی سہیلی بننے دیتی؟؟
نہیں ہر گز نہیں زینب اگر زندی رہتی تو یہی لوگ اور یہی معاشرہ اس کا جینا دوبھر کر دیتا اور وہ ہر قدم پر ریپ کے طعنے برداشت کرتی روز مرتی اور روز جیتی۔۔
اچھا ہوا زینب مر گئی کہ ہمارے لوگ اس خاندان کا جینا محال کردیتے اس کی بہنوں کی شادی کرنا ایک عذاب بن جاتا کہ ہمارے ہاں تو اگر طلاق یافتہ عورت شادی کرنا چاہے تو ہزار سوال اٹھتے ہیں تو بیچاری زینب کیسے جیتی؟کتنے نوجوان جو آج زینب کے لیے انصاف مانگتے ہیں۔وہ زینب سے شادی کے لیئے مان جاتے ؟شاید ایک بھی نہیں ۔۔اور اگر کوئی لڑکا زینب سے شادی کے لیے مان بھی جاتا تو اس کے گھر والے اور یہ معاشرہ کیا اس بات کی اجازت دیتا۔۔نہیں ہر گز نہیں۔۔
زینب کو مر ہی جانا چاہئے تھا کہ ہمارے ہاں زندہ سے زیادہ مرے ہوئے کی قدر ہے۔۔زندہ بےشک بھوکا ننگا مر جائے پر مرنے والے کے نام پر کپڑے اور دیگیں دینا ثواب کا کام ہے۔۔
اچھا ہوا نا زینب مر گئی کہ میں آپ اور ہم سب اس کا جینا محال کیے رکھتے ۔اس کی زندگی دشوار ہوتی، زندہ زینب کا جینا ہر ایک دشوار کرتا کیا مرد کیا عورتیں جو آج بڑے بڑے مضامین لکھ رہے ہیں۔اور نعرے لگا رہے ہیں،ان سب نے زینب کو سکھ کا سانس نہیں لینے دینا تھا۔۔۔تو آج زینب دوزخ سے ذرا پرے جنت کے دروازے پر کھڑی سوچتی ہے کہ کتنا اچھا ہوا نا کہ میں ایک بار میں ہی مر گئی اور روز روز کی تکلیفوں سے اور اس ظالم معاشرے سے نجات پا گئی ورنہ روز روز کا مرنا کتنا اذیت ناک ہوتا جس کا معاشرے کو احساس بھی نہیں ہے۔ روز اپنی ہی نظروں میں مرنے سے بہتر ہو گیا کہ میں ایک ہی بار مر گئی۔
ڈاکٹر زری اشرف ایک ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ سوشل ورکر بھی ہیں۔ اور اس کے علاوہ مطالعہ کی بیحد شوقین۔ قلم کار کے شروع ہونے پر مطالعہ کے ساتھ ساتھ لکھنا بھی شروع کر دیا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn