میں ایک سکول میں استاد ہوں ایک دن اپنی دونوں بیٹیوں اور بیوی کو بٹھائے کہیں جا رہا تھا اور سوچ رہا تھا ہماری جاننے والی فلاں عورت کتنی عجیب ہے۔۔بڑی خود سر ہے اپنا کماتی اور کھاتی ہے کسی کی نہیں سنتی۔اس کی بیٹی جہاں جاب کرتی ہے وہاں اپنے جاننے والے سے ذرا اس کے کردار کے بارے میں بھی پوچھوں گا ۔۔اگر کوئی ایسی ویسی بات پتا چل جائے تو کتنا مزا آئے گا۔۔یہی سوچ رہا تھا کہ پاس سے گزرنے والے لڑکے نے میری بیوی پر جملہ کسا۔ مجھے بہت غصہ آیا کہ کتنے کمینے لوگ ہیں کیا ان کی مائیں بہنیں نہیں ہیں۔میرا بس چلے تو چار لگاؤں۔۔۔
جی یہ ہی عمومی رویہ ہے جو ہمارے معاشرے میں پروان چڑھ رہا ہےکہ ہم جس کو مرضی جو بھی کہیں پر کوئی ہماری عورت کو کچھ نہ کہے۔۔۔
اس سوچ کا پڑھنے لکھنے سے دور کا بھی تعلق واسطہ اس لیے بھی نہیں کہ ابھی پچھلے دنوں ہمارے ملک کے نامور اینکر اور وکیل نے انتہائی گھٹیا دعویٰ کیا کہ وہ ایک کلو میٹر دور سے ہی عورت کے کردار کے بارے میں بتا دیتے ہیں کہ وہ کیسی ہے۔۔
تو وکیل صاحب آپ ایک کلومیٹر کی بات کرتے ہیں میں تو آپ جیسے شخص کی خباثت اور ذلالت بغیر دیکھے ہی بتا سکتی ہوں۔۔
عورت صرف وہ نہیں جو آپ کے گھر کی ہے وہ بھی عورت احترام کے قابل ہے جو اپنا خاندان پال رہی ہے۔۔جو اس ملک کی ترقی میں حصہ ڈال رہی ہے اور جو بہت سے وحشی درندوں سے اپنا آپ بچا کر اس دنیا میں جی رہی ہے۔۔
حضرات جتنا وقت آپ دوسروں کی بہنوں بیٹیوں کی ٹوہ میں لگاتے ہیں اس سے آدھی توجہ اور وقت کی حقدار آپ کی اپنی بیٹی بہن اور بیوی ہے۔یہ آدھا وقت اگر آپ اپنے گھر کی عورتوں کو دیں تو آپ کا شمار ایک اچھے بیٹے، ایک اچھے بھائی اور ایک اچھے مثالی شوہر کی فہرست میں ہو سکتا ہے۔ بہت سے مردوں کو ہر وہ عورت بری لگتی ہے جو خوبصورت ہے بولڈ ہے اپنا کماتی ہے پر اس کی دسترس سے باہر ہے۔۔
تو جناب آپ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ اس دنیا کی ساری عورتیں آپ کے لیے نہیں بنی ہیں۔۔ ارے آپ تو اپنی ایک بیوی کے حقوق پورے نہیں کر پاتے تو اتنی ساری عورتوں کو کیسے سنبھالیں گے۔۔تم بس یہ کرو کہ اپنی گھر والیوں کو عورت اور انسان سمجھ لو کافی ہے۔۔ہمارا کیا ہے ہم اچھے ہیں یا برے جیسے بھی ہیں وہ ہم جانیں ہمارا خدا جانے۔۔۔
تیسرے محلے کی عورت کی فکر اور ٹوہ لگانے کے بجائے اپنے پہلو میں بیٹھی عورت پر توجہ دیں ورنہ اسے کوئی شہباز شریف لے اڑے گا ۔آپ ڈیڑھ کلو میٹر کے بجائے ڈیڑھ مرلے کے گھر میں نظر رکھیں تو بہتر ہے۔۔۔۔
ڈاکٹر زری اشرف ایک ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ سوشل ورکر بھی ہیں۔ اور اس کے علاوہ مطالعہ کی بیحد شوقین۔ قلم کار کے شروع ہونے پر مطالعہ کے ساتھ ساتھ لکھنا بھی شروع کر دیا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn