دیکھو تمہارے چار بچے ہیں اور تمہاری اپنی صحت بھی اچھی نہیں رہتی خون کی کمی بھی ہے،تو بہتر ہے کہ بچوں کی پیدائش میں وقفہ کرو۔
نا باجی نا میرے ساس اور سسر وقفے کو گناہ سمجھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ بچے پیدا کرو جب تک اللہ دے رہا ہے۔
یعنی معاشرے میں عورت کا اپنے جسم پر اتنا بھی اختیار نہیں کہ وہ یہ فیصلہ کر سکیں۔
ایک مکمل مرد کو پیدا کرکے پروان چڑھانے والی خود کیوں نامکمل ہے۔
کیا عورت کا وجود مرد کے بغیر نامکمل ہے ؟ جب حضرت آدم کو بنایا گیا تو کچھ عرصے بعد حضرت حوا کی پیدائش آدم کی تکمیل کرتی نظر آتی ہے۔
حالات بدلے ہیں بہت سے شعبوں میں خواتیں اعلی عہدوں پر فائز ہیں اور اپنی ذمے داریاں بخوبی پوری کرتی نظر آ رہی ہیں۔
مگر دوسری طرف دیکھیں تو سارا دن دوسروں کے گھروں اور کھیتوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے والی خواتین مردوں سے مار بھی کھاتی ہیں اور ان کی ہوس بھی پوری کرتی ہیں۔
مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ یہ نامکمل عورتیں مکمل ڈاکٹر انجینئر استاد اور بینکر کیسے بن جاتی ہیں۔
اس دنیا میں سب سے مشکل کام آنسان کو جنم دینا ہے اور یہ جان لیوا کام خواتین بخوشی ہر سال سرانجام دیتی ہیں۔بلکہ بہت بار تو اپنی جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔
کہتے ہیں کہ باپ مر جائے تو ماں کسی نہ کسی طرح بچے پال بھی لیتی ہے اور ان کو ایک ساتھ بھی رکھتی ہے ،جب کہ ماں مر جائے تو پورا گھر بکھر جاتا ہے۔
میں یہ بات بھی مانتی ہوں کہ بہت سی خواتین
جو پڑھ لکھہ کر اچھی نوکری کرتی ہیں اور مرد سے زیادہ تنخواہ کماتی ہیں تو وہ اپنے شوہر کا جینا بھی حرام کیے رکھتی ہیں۔خود جتنی بھی مزے کی زندگی گزاریں پر وہ اپنے شوہر پر مختلف الزامات اور معاشرتی پابندیاں لگا کر اس کی زندگی حرام کیے رکھتی ہیں۔
عورت خود ایک مکمل وجود اور اپنی پہچان رکھتی ہے جہاں مرد کو عورت کے وجود کو ماننا اور احترام کرنا بہت ضروری ہے وہیں عورتوں کو چاہیئے کہ اپنی ترقی کی خاطر مرد کر نیچا نہ دکھائیں بلکہ مرد بھائ ہے باپ۔شوہر یا بیٹا اس کو پر روپ میں اپنی طاقت بنائیں۔تبھی یہ وجود ترقی اور تکمیلی مراحل بہتر طور پر طے کرے گا ۔
بہر حال عورت کو ابھی تک نامکمل ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔جب کہ عورت مکمل گھر چلاتی ہے۔عورت کے بغیر کوئی خاندان مکمل نہیں یہاں تک کہ کوئ مرد عورت کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔آیک مکمل عورت کا ہی کمال ہے کہ خدا نے اسے انسان کو مکمل کرنے کی ذمے داری سونپی۔
ڈاکٹر زری اشرف ایک ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ سوشل ورکر بھی ہیں۔ اور اس کے علاوہ مطالعہ کی بیحد شوقین۔ قلم کار کے شروع ہونے پر مطالعہ کے ساتھ ساتھ لکھنا بھی شروع کر دیا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn