جیسے دنیا میں سائنس ترقی کرتی جا رہی ہے اسی طرح پاکستان میں روز بروز شدت پسند بڑھتی جارہی ہے اور حکومت نامعلوم جگہوں پر دنیا کی طاقتور افواج کی فہرست میں آنے والی فوج سے انگلش ، اردو اور عربی ناموں کے آپریشن جاری کئے ہوئے ہے یہ معلوم نہیں یہ آپریشن کہاں ہورہے ہیں حالانکہ پاکستان کی لال پیلی مسجدوں سے آج بھی شدت کی اماں اپنے بچوں کی تربیت جاری رکھے ہوئے ہے کیونکہ اس اماں سے پیدا ہونے والے بچے مختلف ادوار میں حکومتوں کے لیے اپنے ووٹ کاسٹ کرتے آئے ہیں خاص طور پر پنجاب کی ایک طاقتور سیاسی پارٹی کے لئے ۔حیرت کی بات یہ ہے پنجاب اور بلوچستان کے علاوہ پاکستان کے ہر کونے میں آپریشن ہوچکا ہے کراچی کے ہر چور اچکے کو شدت پسندی کے تنازعے میں گرفتار کر کے حکومت کی چمچہ گیری کا واضح ثبوت پیش کیا گیا ہے اب دہشت گردوں نے بھی اپنے ٹھکانوں کو تبدیل کر لیا ہے پہلے تو یہ بچوں کی تربیت مدرسوں میں کیا کرتے تھے اب انہوں نے اپنا دائرہ اچھے تعلیمی اداروں تک بڑھا لیا ہے اور ہمارے تعلیمی ادارے بھی ان کے لیے اچھی تربیت گاہ ثابت ہو رہے ہیں یہ تعلیمی اداروں ان لوگوں کو اپنے جال میں لے آتے ہیں جو کسی بھی احساس کمتری کا شکار ہوں مثال کے طور پر ایک احساس کمتری میں شکار لڑکی کو یہ باور کرایا جاتا ہے جو فیشن وہ نہیں کر سکتی اس میں خدا کی رضا ہے خدا نے اسے اپنے لیے چن لیا ہے اور باقی لوگ حرام کر رہے ہیں تو ایسے طالب علم بغیر سوچے سمجھے دہشت گردی کی کشتی میں سوار ہوجاتے ہیں اب ایک چیز پر غور کیا جاۓ پاکستان میں فوجی آپریشن کامیاب ہونے کے نعرے لگائے جاتے ہیں اگر آپریشن کامیاب ہو رہا ہے تو آپریشن کے باوجود انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے طالب علم سلمان تاثیر کے بیٹے کے اغوا میں ملوث پائے جاتے ہیں پنجاب یونیورسٹی سے پروفیسر دہشت گردی کے زمرے میں گرفتار کیے جاتے پوری جامعہ پنجاب پر ایک اسلامی نام پر بنائی گئی سیاسی جماعت کی دہشت آج بھی باقی طالب علموں میں موجود ہے
ایک میڈیکل کالج کی لڑکی لاہور پولیس مقابلے میں گرفتار ہوتی ہے مردان میں مشعال کو توہین مذہب میں مار دیا جاتا ہے اور اسی طرح چند عورتیں ایک گھر میں گھس کر ایک بندے کو اسلام کی توہین کے نام پر گولیوں سے بھون دیتی ہیں۔
اور بعد میں یہ ہوتا ہے نورین لغاری اور احسان اللہ احسان جیسے انٹرویو دے کر دہشت گردی سے توبہ کر کے شدت پسندی کی تبلیغ کا کام جاری کر دیتے ہیں
ہم لوگوں کی جسموں میں پلنے والی دہشت گردی کو ختم کرنے کی کوشش تو کر رہے ہیں مگر ذہنوں میں پلنے والی شدت پسندی کے لیے کوئی حل نہیں ڈھونڈ رہے اسکا حل یہی ہے ہر فرقے کے شدت پسند مولوی کو سرکار کا تنخواہ دار بنا دیا جائے تو ایسے شدت پسند مولوی پیسے سے وفاداری کےلئے کتے کی وفاداری کا خطاب بھی اپنے نام کر لییں گے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn