Qalamkar Website Header Image

لبرل جمہوریت اور مزدور / پرولتاری جمہوریت – ضیغم اسمعیل خاقان

جمہوریت کا تصور کوئی جدید عہد کی پیداوار نہیں ہے بلکہ انسانی سماج کے ارتقا کو دیکھا جائے توقدیم اشتمالی سماج عین جمہوری سماج تھا جہاں گروہوں اور قبائل میں منتظمین کا انتخاب جمہوری طریقہ کار اور کثرتِ رائے کے بجائے باہمی مشاورت اور اتفاق رائے سے کیا جاتا تھا۔ پیداوری قوتوں کے ارتقاءنے سماج کا ڈھانچہ تبدیل کر دیا اور جمہوری روایات آہستہ آہستہ کمزور پڑنے لگیں۔ آبادی میں اضافہ اور زراعت کے آغاز نے ذاتی ملکیت کو جنم دیا۔ طاقتور قبائل نے کمزور قبائل کی زمینوں پر بزور شمشیر قبضے کئے اور لوگوں کو غلام بنانا شروع کیا اور یوں غلام داری نظام کا آغاز ہوا جو آگے چل کے جاگیرداری میں تبدیل ہوگیا۔ جاگیرداری میں باقاعدہ آمرانہ بادشاہتوں کا آغاز ہوا۔ ابتداء میں منتظمین کا انتخاب جمہوری تھا جو کہ بعد میں موروثی ہوگیا۔ غلام داری یونان اور روما میں ریاستی کونسل یا سینٹ کا انتخاب جمہوری روایات کے مطابق ہوتا تھا فرق صرف اتنا تھا کہ جمہوری عمل میں اشرافیہ شامل تھے عوام کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ سرمایہ داری نظام کے آتے ہی ضرورت درپیش ہوئی کہ پرانے ریاستی ڈھانچے کو منہدم کر دیا جائے اور نیا ریاستی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے جس کی مرکزی اساس لبرل جمہوریت ہے۔ قدیم اشتمالی سماج میں اتفاق رائے جبکہ موجودہ لبرل جمہوریت میں کثرتِ رائے سے انتخابات ہوتے ہیں۔ انیسویں صدی میں جب سرمایہ داری نظام کے خد و خال واضح ہوئے تو بہت سے مفکرین نے اشتراکیت کو سرمایہ داری کا متبادل بتایا۔ انہیں مفکرین میں سائنسی سوشلزم کے بانی کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز بھی شامل تھے۔ مارکس ہی وہ شخص تھے جنہوں نے سب سے پہلے مزدور / پرولتاری جمہوریت کی اصطلاح استعمال کی۔ مارکس کہتے ہیں:

"مجھ سے قبل بورژوا مورخوں نے طبقات کے درمیان کشمکش کی بخوبی تشریح کر دی ہے میرا اپنا حصہ یہ ہے (1) طبقات کا وجود محض پیداواری قوتوں کے ارتقاء کے تاریخی مراحل سے جڑا ہوا ہے (2) طبقاتی جدوجہد لازم طور پر مزدور / پرولتاری جمہوریت کو جنم دیتی ہے اور (3) یہ آمریت طبقات کے خاتمے اور غیر طبقاتی سماج کی بنیاد رکھنے کہ سوا کچھ نہیں”
. چنانچہ مزدور / پرولتاری جمہوریت مارکس کا ہی دیا ہوا فلسفہ ہے۔

1917 میں کامریڈ لینن کی قیادت میں سوویت یونین کے قیام نے مزدور / پرولتاری جمہوریت کو عملی ثابت کر دیا۔ مزدور / پرولتاری جمہوریت کے خلاف لبرل حلقوں کا پروپیگنڈا اسے جابر آمرانہ نظام حکومت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی وضاحت ہمیں لبرل جمہوریت اور مزدور / پرولتاری جمہوریت کے مطالعہ سے ہوگی کیونکہ مزدور / پرولتاری جمہوریت لبرل جمہوریت سے افضل ہے۔

جمہوریت کے لغوی معنی ہیں "لوگوں کی حکمرانی”۔ یہ اصطلاح دو یونانی الفاظ "دیموس” یعنی "لوگ” اور "کریتوس” یعنی "حکومت” کا مرکب ہے۔ بعض لوگ اس کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ لوگوں کی "اکثریت کی بات ماننا”، لیکن در حقیقت یہ اکثریت کی اطاعت کا نام ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یونانی مفکر ہیروڈوٹس کہتا ہے: "جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں”۔ چنانچہ سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کا قول "عوام کی حاکمیت، عوام کے ذریعے، عوام کے لیے” اسی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:  مولانا فضل الرحمان کا سیاسی میلہ - حیدر جاوید سید

دیکھنا یہ ہے کہ کیا لبرل جمہوریت اس قول پہ پورا اترتی ہے؟ دنیا میں جن ممالک میں جمہوریت کا پرچار کیا جاتا ہے وہاں دیکھنے میں آیا ہے کہ عوام کی اکثریت کا عمل دخل ووٹ دینے کی حد تک ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ عوام ووٹ کے ذریعے 4 یا 5 سال کے لیے کثرتِ رائے سے اپنے نمائندے چنتے ہیں اور مدت پوری ہونے پر یہ ہی عمل دہرایا جاتا ہے۔ لبرل جمہوریت کے پرستاروں کا بلند و بانگ دعویٰ کہ حکومت عوامی اکثریت کی نمائیندہ ہوتی ہے اسی وقت زمیں بوس ہو جاتا ہے جب انتخابات میں کل ووٹروں کا 30 سے 60 فیصد حق رائے دہی استعمال کرتا ہے۔ یعنی ووٹروں کا تقریباً نصف حصہ انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیتا۔ اور یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عوام اپنے ووٹ کا صحیح استعمال نہیں کرتی جس کی وجہ سے عوام دشمن کرپٹ عناصر حکومت میں آ جاتے ہیں، عوام کو چاہیے کہ اپنے حلقوں میں سے امیدوار کھڑے کرے انہیں ووٹ دیں اور کامیاب کرائیں تاکہ عوام دوست حکومت کا قیام ہو۔ یہ لفاظی سننے میں نہایت دلکش ہے مگر حقیقت سے کوسوں دور۔ اس کی وجہ جمہوری نظام کے نام پر جو طریقہ کار ہے اس میں کسی عام آدمی کی شمولیت کی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ حال ہی میں امریکی صدارتی انتخابات ہوئے جس میں دو صدارتی امیدواروں ہلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہموں پر بتدریج 4.5 کروڑ اور 2.5 کرورڑ امریکی ڈالر خرچ ہوئے جبکہ اشتہارات کی مد میں ٹرپ نے 3.6 کروڑ اور کلنٹن نے 1.8 کروڑ امریکی ڈالر خرچ کیے۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو سرکار کی طرف سے انتخابی اخراجات کی مقررہ حد صوبائی اسمبلی کے لیے 10 لاکھ روپے اور قومی اسمبلی کے لیے 15 لاکھ روپے ہے جبکہ اصل اخراجات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے لیے لگ بھگ 2 کروڑ اور قومی اسمبلی کے لیے تقریباً 4 کروڑ روپے درکار ہیں۔ اگر ہم بلدیاتی انتخابات کی بات کریں تو ایک جنرل کونسلر کو 1.5 لاکھ اور تحصیل کونسل کے انتخابی مہم کے لیے کم از کم 4 لاکھ روپے درکار ہیں۔ یہ کثیر رقوم ایک غریب 14000 ماہانہ آمدنی والے مزدور، کسان یا ذہنی محنت کرنے والے اساتذہ کے لیے جمع کرنا ناممکن ہے۔ عوامی حلقوں سے انتخابات میں حصہ نا لینے اور نا اہل لوگوں کو انتخاب کرنے کا ملبہ عوام پر ڈالنا دراصل عوام کو بیوقوف بنانا ہے۔ لبرل جمہوریت دراصل بورژوازی کی آمریت ہے یعنی سرمایہ دار طبقے کی آمریت ہے جو سرمایہ دار طبقے کی نمائندہ اور سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی محافظ۔ مزدور / پرولتاری جمہوریت لبرل جمہوریت کا متضاد اور متبادل ہے جو کہ محنت کش طبقے یعنی اکثریت کی آمریت ہے اس کے برعکس لبرل جمہوریت اقلیتی طبقے یعنی سرمایہ داروں کی آمریت ہے۔ مزدور / پرولتاری جمہوریت محنت کش طبقے کے مفادات کی محافظ ہے۔ اور یہ عبوری دور کے لیے ہوتی ہے ۔مزدور / پرولتاری جمہوریت کی عملی مثال سوویتس (مزدور کمیٹیوں) کے نظام میں بخوبی ملتی جوکہ لیننی نظریہ جمہوری مرکزیت کی بنیادوں پر استوار ہے۔ محنت کشوں کی نمائندہ سوویت (کمیٹی) یا کونسل تشکیل دی جاتی ہے جو نچلی سطح سے اوپر کی طرف آتی ہیں۔ تمام فیکٹریوں، کارخانوں کے مزدوروں، کسانوں، طالب علموں، اساتذہ، خواتین پر مشتمل ہوتی ہیں۔ نمائیندوں کے انتخابات بالا رنگ و نسل و جنسی امتیاز کے ہوتے ہیں اور ووٹ کا حق تمام شہریوں کو حاصل ہوتا ہے۔ انتخابات میں تمام شہری حصہ لے سکتے ہیں۔ انتخابات کثرتِ رائے کے بجائے اتفاق رائے سے کیے جاتے ہیں جو کہ حقیقی معنی میں عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تمام تر فیصلے باہمی مشاورت اور اتفاق رائے سے ہی طے پاتے ہیں۔ علاقائی سوویتس (مزدور کمیٹیوں) کے نمائندے ضلعی سوویتس (مزدور کمیٹیوں) کو چنتے ہیں، ضلعی سوویتس (مزدور کمیٹیوں) صوبائی اور صوبائی سوویتس (مزدور کمیٹیوں) قومی سوویت کو چنتی ہیں۔ تمام تر مسائل اور قوانین علاقائی کونسلوں سے لے کر قومی کونسل تک بحث و مباحثے کے بعد اتفاق رائے سے منظور یا رد کیے جاتے ہیں۔ یہ فیصلے تمام محنت کشوں کے مفادات کو مدنظر رکھ کر کیے جاتے ہیں اور عوام کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ ان فیصلوں کو منظوری سے پہلے اتفاق رائے سے رد کر دیں۔ یہ ہی طریقہ کار کونسل نمائندگان کے چناو میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بورژوا جمہوریت کے برعکس مزدور / پرولتاری جمہوریت میں نمائندوں کی ناقص کارکردگی کی بنا پر عوام جب چاہیں اپنے نمائندے واپس بلا سکتے ہیں اور نئے نمائندے منتخب کر سکتے ہیں۔ مزدور / پرولتاری جمہوریت میں فیصلے عوامی اتفاق رائے سے کیے جاتے ہیں جبکہ لبرل جمہوریت میں حکمران اپنے فیصلوں کو عوام پر مسلط کرتے ہیں جن میں عوامی رائے کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ لبرل جمہوریت بورژوازی یعنی سرمایہ دار طبقے کی نمائندگی کرتی ہے اسی طرح مزدور / پرولتاری جمہوریت پرولتاریہ یعنی محنت کش طبقے کی نمائندہ ہوتی ہے۔ لبرل حلقوں کا یہ پروپیگنڈہ کہ مزدور / پرولتاری جمہوریت رجعتی جابر آمرانہ طرز حکومت ہے بے بنیاد ہے بلکہ مزدور / پرولتاری جمہوریت لبرل جمہوریت سے زیادہ جمہوری ہے جہاں کثرتِ رائے کے بجائے اتفاق رائے ہوتی ہے، جہاں عوامی مشاورت کا عمل دخل ہوتا ہے، جو اکثریت کی نمائندہ ہے اور لبرل جمہوریت کی طرح دکھاوے کی نہیں بلکہ صحیح معنی میں جمہوری طرزِ حکومت ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  دلیل حق ہے پیغامِ کربلا

 

حالیہ بلاگ پوسٹس