کچھ کہانیوں کے کردار ایسے ہوتے ہیں جو ذہن پر بہت گہرا تاثر نقش کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ پرانے کردار بھولنے لگتے ہیں اور نئے کرداروں سے دوستی ہونے لگتی ہے۔ کچھ دن سے مجھے بھی صادق ہدایت کا ’’کبڑا داؤد‘‘ یاد آرہا ہے، جس کے درد کی شدت کا اندازہ فارسی سے اردو ترجمہ کرنے کی مشق کے دوران ہوا۔ ہمدردی اور ترس کے جذبات اس کبڑے داؤد کےلیے امڈنے لگے۔ یہ بالکل بھی یاد نہیں رہا کہ ایک کہانی کا کردار ہے، کون سا حقیقت میں داؤد کا کوئی وجود ہے۔ پھر نئے کرداروں سے واقفیت ہونے لگی تو ’’کبڑا داؤد‘‘ اپنی اذیت بھری زندگی کے ساتھ کہیں دفن ہوگیا۔
اتنے سال گزرنے کے بعد آج بازار میں ایک زمین پر رینگتے آدمی کو دیکھا جس کو آتے جاتے لوگ ہنسی مذاق نہیں شاید طنز و تضحیک کا نشانہ بنا رہے تھے اور اپنے فالتو وقت کو اس پر ضائع کر رہے تھے؛ تو صادق ہدایت کا ’’کبڑا داؤد‘‘ کہانی سے نکل کر میرے سامنے کھڑا تھا، جسے لوگ اس کی معذوری کی آڑ میں جگتیں لگا رہے تھے اور وہ کبڑا خاموشی سے سر جھکائے لوگوں کی باتوں کو نظرانداز کیے اپنی منزل کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، اس کو ایسے سستے مذاق سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا یا پھر وہ جسمانی لحاظ سے کمزور تھا اور اپنی معذوری کے ہاتھوں لوگوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔ جو بھی تھا، لیکن مجھے اس وقت وہ بہت باہمت اور مضبوط لگا جو اتنے ہجوم میں اپنی ذات کو نشانہ بنتے دیکھ کر بھی اپنے قدموں پر چل رہا تھا کیونکہ اسے منزل پر پہنچنے کی جلدی تھی جہاں اس کی روزی روٹی کا سامان تھا۔
جب وہ زمین پر رینگتا آدمی بازار کا آخری موڑ کاٹ کر نظروں سے اوجھل ہوا، تو آوازیں دم توڑنے لگیں۔ سب کے ہاتھ کوئی نیا مشغلہ آ گیا۔ وہ اس کے لتے لینے لگے اور اس معذور آدمی کو بھول گئے۔ مجھے اس وقت یہ بات سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ لوگوں کا تو یہ مشغلہ ہے۔ کسی کی کمزوری اور معذوری پر (چاہے ذہنی ہو یا جسمانی) طنز کے تیر برسانا اور دل آزاری کرنا ایک معمول کی بات ہے۔ اگر یہ لوگ خود کو آئینے میں اس جگہ پر کھڑا رکھ کر اپنے اوپر اس طرح کے جملے کسیں تو اس اذیت کا اندازہ کر پائیں گے جو یہ بھرے بازار میں خود سے کمزور لوگوں کو دیتے ہیں۔ لیکن اتنا تردد کون کرے؟ کبھی کبھی لگتا ہے کہ ’’کبڑے‘‘ یہ کمزور و معذور لوگ نہیں بلکہ ہمارا ’’سماج کبڑا‘‘ ہے جس کی پرورش میں منفی رویوں کا زیادہ ہاتھ ہے۔ بےحسی، مفاد پرستی، تنگ نظری اور بلاوجہ کے طنز نے، تنقید نے نفرتوں کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ مثبت بات میں بھی کیڑے نکالنا ایک اچھا عمل گردانا جاتا ہے۔
اگر کسی نے اپنی ہمت سے بڑھ کر محنت اور دل جمعی سے کوئی کام کیا ہے تو اسے سراہنے کے بجائے، اصلاح کی آڑ میں نقص نکالے جاتے ہیں تاکہ آئندہ وہ انسان ایسی غلطی نہ کرے اور اصلاح کرنے والے کا احسان مند بھی ہو کہ اس نے ہماری غلطی کی نشاندہی کی ہے۔ غلطی کی نشاندہی کرتے کرتے انسان یہ بات بھول جاتا ہے کہ وہ کسی کا دل توڑ رہا ہے، اس کی دل آزاری کا سبب بن رہا ہے۔
افسوس ہم میں سے کوئی بھی یہ بات سوچنے کی زحمت نہیں کرتا کیونکہ ہمیں ہر بات میں نقص نکالنے کی عادت ہوگئی ہے۔ کبڑے سماج کے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں جو نہ معذور کے احساسات کی قدر کرتے ہیں اور نہ ہی محنت سے کیے گئے کسی کام کی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn