فجر کی نماز کے بعد واک سے واپسی پر گھر کے داخلی دروازے کے ساتھ لگے میٹر کے یونٹ چیک کرنا حاجی صاحب کے روز کے معمول میں شامل تھا۔ پتا نہیں ہر روز دیکھنے سے یونٹ کم ہوتے تھے یا بڑھتے تھے معلوم نہ ہو سکا۔ حاجی صاحب کے ایسے بہت سے اور بھی کام تھے جو سمجھ سے بالاتر رہے۔ ایک بات کا حاجی صاحب کو بہت شوق تھا محلے میں جہاں بھی کوئی سیاسی یا مذہبی لارنر مینٹگ ہوتی کوئی نہ بھی بلاتا تو پہنچ جاتے اور اپنے علم کا فیض سب کو عنایت فرماتے۔ ایسی کسی میٹنگ سے جب گھر واپس آتے تو اپنے شریک حیات کو سارا احوال سناتے اور وہ بہت دل جمعی و تابعداری سے سنتی۔ کیونکہ ان کو بھی نت نئے اور ہاں پرانے واقعات کی روداد سنانے کا بہت شوق تھا جو بھی ہاتھ لگتا اس کی مشکل سے جان چھوٹتی۔
وہ ایک اچھی قصہ گو کے نام سے بھی مشہور تھیں۔ قصہ گوئی کے شوق کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھولا بسرا مہمان آ جاتا تو اس کو چائے پانی کا پوچھنے کے بجائے پہلے تازہ ترین قصے سنائے جاتے پھر کہیں باتوں کے درمیان خیال آ جاتا تو خود کو کوستے اٹھتیں اور کہتیں ہائے باتوں میں پانی کا پوچھا ہی نہیں اچھا میں ذرا گلی میں کوئی بچہ دیکھ کر بوتل منگواتی ہوں اور اپنے گھٹنوں کو تھام کر اٹھنے کی کوشش کرتیں کچھ مروت کے مارے مہمان ان کے گھٹنوں کو پکڑے ہاتھ دیکھ کر فورا منع کر دیتے بہن رہنے دیں ہم بڑی خالہ کی طرف سے چائے پی کر آئے ہیں آپ بس ہمارے پاس بیٹھی رہیں۔
وہ دل ہی دل میں شکر ادا کرتیں اور بوتل کے پیسے بچ جانے پر خوش ہوتیں اور پھر سے اپنا ایف ایم چینل آن کر لیتں۔ اصل میں زیادہ تر رشتے دار ان کے ہاں آس پاس کا خبرنامہ سننے ہی آتے تھے جانتے تو وہ بھی تھے کہ اس گھر سے چائے پانی کسی قسمت والے کو ہی نصیب ہوتا ہے لیکن قصے کہانیاں سب میں برابری کی سطح پر تقسیم کی جاتیں ہیں۔ ایک دن سامنے والی بانو کہنے لگی مجھے تو لگتا ہے حاجی صاحب کی بیگم ہاتھ میں پکڑی تسبیح پر ذکر نہیں کرتیں بلکہ اپنی باتوں کا اعدادوشمار کرتیں ہیں کہ کوئی کمی تو نہیں رہ گئی۔ بات تو دل کو لگی لیکن نیتوں کے حال جاننے والے ہم کون ہوتے ہیں۔
اب ہم حاجی صاحب کو ہر سال عمرہ یا حج کی سعادت حاصل کرتے دیکھتے آ رہے تھے تو کیا ان کی عبادت اور نیت پر شک کرتے۔ یہ تو ان کا اور مکہ مدینہ کے والیوں کا معاملہ تھا ہم اور تم لوگ کون ہوتے ہیں جو ان معاملات میں نیت کا تعین کرتے پھریں۔ لیکن حاجی صاحب کی نیت کا اندازہ اس بات سے ہو جاتا جب وہ حج یا عمرہ کے لیے روانہ ہوتے تو سارے محلے اور رشتے داروں کی طرف ملنے جاتے اور اپنی جانے انجانے میں ہوئی غلطیوں کی معافی بھی مانگتے۔ مجھے آج تک اس رسم کی سمجھ نہیں آئی یہ کب کیسے اور کیوں چلی؟ عجیب سا لگتا ہے جب کوئی مکہ مدینہ جانے سے کچھ دیر پہلے آ کر دوسروں سے معافی مانگتے ہیں۔ دیکھیں جانا تو آپ کو ہے اور ضرور جانا ہے سب کچھ تیار ہے پھر یہ رسمی اور دکھاوے کی معافی کیا ہوئی۔ جب دل ہی صاف نہ ہوں اور دل کا حال اس پاک ذات سے بہتر کون جانتا ہے۔ لیکن ان لوگوں کو کون کہے اور سمجھائے کہ جن کے دل توڑے ہوں ان سے معافی نہ مانگی جائے آپ کے اس عمل سے ان کو زیادہ اذیت ہوتی ہے۔
خیر حاجی صاحب بھی یہ رسم نبھاتے ایئرپورٹ پر پہنچتے جہاں ان کی محبوبہ بھی اپنے بچوں سمیت الوداع کرنے پہنچی ہوتیں۔ آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ حاجی صاحب اور محبوبہ۔ جی بالکل حاجی صاحب کی ایک عدد محبوبہ بھی تھیں کچھ لوگ کہتے تھے اب نکاح کر لیا ہے کچھ کہتے تھے یوں ہی ان کے گھر آتی جاتی ہیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ ایک دن حاجی صاحب کی شریک حیات کہنے لگیں لوگوں کی عادت ہے باتیں بنانا بہت بھلا مانس عورت ہے میرے بچوں سے اتنا پیار کرتی ہے کپڑے جوتے دلاتی ہے سگی ماؤں کی طرح خیال رکھتی ہے اور مجھے اپنی بہن کی طرح چاہتی ہے مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں بلکہ میرے تو گھر کا نظام بہت اچھا چل رہا ہے بچت ہو جاتی ہے۔ اپنا فائدہ دیکھنا چاہیے اور حاجی صاحب کا یا ہمارا کیا جاتا ہے وہ خود یہاں آتی ہے عورت ہو کر اپنی عزت کی پرواہ نہیں تو ہم کیا کریں۔ بس جہاں سے مفاد حاصل ہو وہی آپ کا اپنا ہے۔ عجیب و غریب فلسفہ تھا جو ایئرپورٹ پر چپکے سے نشر کیا جاتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے فلائٹ کی روانگی کا وقت ہو جاتا تو حاجی صاحب اپنے بچوں کو چھوڑ کر محبوبہ کے بچوں کے گلے ملنے لگتے یہ الگ بات ہے بچے کافی جوان تھے۔ یہاں آ کر شریعت کے احکامات دم توڑ جاتے شاید مفاد کی بات تھی۔ جب سے حاجی صاحب نے یہ سلسلہ شروع کیا تھا مطلب مکہ مدینہ حاضری کا تو ہر سال یہ سین کسی بھی ردوبدل کے یوں ہی چلتا۔
معلوم نہیں اب چار سال سے وہ کہیں کیوں نہیں گئے شاید بیمار ہو گئے یا پھر بڑھاپے کی وجہ سے۔ کچھ لوگ کہتے تھے ان کو کسی سے معافی مانگنی تھی لیکن مانگ نہیں سکتے اس لیے کہتے ہیں کس منہ سے اللہ کے گھر جاؤں۔ اگر معافی مل جائے تو پھر جانے کا سوچوں۔ تو وہ مانگنے گئے؟ ہم نے پوچھا۔ نہیں وہ وہاں جا نہیں سکتے۔ ایک خیر خوانے کہا۔
کیوں چلنے پھرنے سے قاصر ہیں؟
ایسی بات نہیں وہ تندرست ہیں لیکن وہ کس منہ سے معافی مانگنے جائیں یہ سوچتے ہیں۔
اچھا انہوں نے ایسا کیا کر دیا جو منہ چھپاتے پھرتے ہیں؟
غلطی ہو گئی جو آپ سے بات کہہ دی اتنی معلومات ہمارے پاس نہیں۔ بتانے والا اکتائے لہجے میں بولا
آپ بھلا ان کی زوجہ کے پاس تشریف لے جاتے تو قصے کہانیوں کے انبار لگا دیتیں۔
وہ اب کم بولتی ہیں لوگوں کے سوالات سے ڈرتی ہیں اس لیے زیادہ تر کوئی آئے جائے تو بستر سے اٹھتیں نہیں بیمار رہتی ہیں۔
کچھ دن بعد وہ خیر خواہ پھر آیا اور کہنے لگا سنا ہے حاجی صاحب حج پر جا رہے ہیں لگتا ہے معافی مل گئی ہے۔
شاید مل گئی ہو لیکن ضروری تو نہیں کوئی معاف کرے تو ہی حج کی ادائیگی ہوتی ہے آپ نے وہ کلام تو سنا ہو گا۔
حاجی لوک مکے نوں جاندے
میرا رانجھا ماہی مکہ
توبہ توبہ یہ کیا باتیں ہیں رانجھا ماہی مکہ؟؟
اچھا توبہ نہ کریں اور بات سمجھنے کی کوشش کریں۔
ہمیں ایسی باتیں سمجھ نہیں آتیں۔ بہت ہی نالائق خیرخواہ نکلا۔
چلیں قبلہ واصف علی واصف کی بات سنیں۔ "فرماتے ہیں ہر عبادت کی قضا ہے لیکن انسانی دل توڑنے کی کوئی قضا نہیں ہے”۔
تو کیا حاجی صاحب بغیر معافی کے ہی حج پر چلے؟ بیچارا خیرخواہ حیران پریشان ہو کر رہ گیا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn