یہ روز کا معمول تھا کہ اسکول جانے سے پہلے باہر سے آتی بچوں کی "السلام علیکم باجی” "السلام علیکم قاری صاحب” جیسی آوازیں میری کوفت و پریشانی کا سبب بنتی رہیں۔ اسکول جانے کی تیاری کرتے ہوئے اماں سے ناراضگی کا اظہار کرنا اور مدرسے جانے یا پھر ساتھ والی باجی جی کے گھر سپارہ پڑھنے کی ضد کرنا شامل رہتا لیکن اماں کا ایک ہی جواب ہوتا آپ کے ابو مدرسے اور کسی محلے کے گھر بھیجنا اچھا نہیں سمجھتے اس لیے یہ ضد چھوڑ دو اور میں آپ کو سپارہ پڑھاتی تو ہوں قاری صاحب اور باجی بھی یہی سبق پڑھاتے ہیں۔ یہ اچھی بات نہیں کہ گھر میں آرام سے اپنا سبق پڑھ لیتی ہو۔ کچھ دن تک یہ باتیں یاد رہتیں۔ کچھ دن سکون سے گزرتے کہ پھر سے وہ اپنی ہم عمر آوازیں ستانے لگتیں۔ ہمارا بھی دل کرتا کہ ہم بھی اس ننھے منے گروپ میں چھوٹا سا اسکارف سر پر لپیٹ کر ہاتھ میں سپارہ تھامے لہک لہک کر باجی جی "السلام علیکم” کی گردان کیا کریں۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں یہ بےجا ضد زیادہ بڑھ جاتی۔ آخرکار اماں نے اس کا حل یہ نکالا کہ ہمیں سپارہ دے کر تائی اماں کے پاس بیٹھا دیا کہ ماں کے پاس پڑھنا پسند نہیں تو تائی کے پاس شاید دھیان سے پڑھ لے۔ لیکن میرا دل وہاں بھی نہیں لگتا تھا تائی اماں فجر کی نماز کے بعد وظائف کا ورد کر رہی ہوتیں اور میں چپ چاپ پاس جا کر بیٹھ جاتی وہ مسکرا کر کہتیں کہ صبح اٹھ کر بڑوں کو سلام کرتے ہیں اور اب تو آپ سپارہ بھی پڑھنے آتی ہو۔ میں حیران پریشان نظروں سے ان کو دیکھتی اور سوچتی بھلا آپ کے پاس کون سا اتنے بچے آتے ہیں میں اکیلی ہی تو ہوتی ہوں میری السلام علیکم کی آواز باہر تک کیسے جائے گی۔ خیر دو سال تک تائی اماں کی شاگردی میں رہے اور سپارہ شروع اور ختم کرنے سے پہلے میٹھے میں کچھ ساتھ لیتے جو زیادہ تر بسکٹ، چاکلیٹ اور کینڈیز ہوتیں تائی اماں کو بھی زبردستی کھلاتے اور خود بھی کھاتے کیونکہ میں نے اسکول میں دوستوں کی زبانی سنا تھا کہ جب وہ سپارہ شروع کریں تو باجی کہتی ہیں آج میٹھے میں کچھ ضرور لانا۔ اب ہماری تو تائی اماں استاد تھیں انہوں نے کبھی ایسی فرمائش نہیں کی لہذا ہم خود ہی اس بات کا خاص خیال رکھتے۔ جب تائی اماں زیارات پر جانے لگیں تو میں نے ان سے کہا کہ آپ سب کو کہہ دیں اس کو مدرسے بھیج دیں گھر میں رہ کر ہمارا تلفظ خراب نہ ہو جائے۔ آپ اپنی امی کے پاس سبق دہراتی رہنا تلفظ خراب نہیں ہو گا اور میں اپنی بیٹی کے لیے دعا بھی کروں گی اس لیے فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ مسکراتے ہوئے بولیں شاید وہ ہماری چالاکی بھانپ چکی تھیں کہ مدرسے جانے کا خناس ابھی تک دماغ سے نکلا نہیں۔
سچ کہوں تو تائی اماں کے پاس بیٹھ کر سبق دہراتے ہوئے بھی مجھے وہ ہر عمر کے بچوں کی ملی جلی ایک آواز میں السلام علیکم کہتی آوازیں اپنی طرف متوجہ کرتیں۔ تائی اماں دو ماہ کے لیے زیارات پر چلی گئیں تو پھر سے ہم اماں کی شاگردی میں آ گئے۔ اماں کے پاس آتے ہی صبح جلدی اٹھنے والی روٹین کو خیر آباد کہا اور دوپہر یا شام کے وقت سبق دہراتے۔ اب ہم اس عمر یہ بات تسلیم کر چکے تھے کہ مدرسے کی شکل دیکھنا ہماری قسمت میں نہیں وہ اور بچے ہوتے ہیں جو مدرسے جاتے ہیں ان کے والدین کو جنت کا شوق ہوتا ہے لیکن ہمارے والدین کو پتا نہیں جنت کا کوئی شوق ہی نہیں نہ کوئی فکر۔ اسکول میں ایک لڑکی کہنے لگی میں اب حفظ کروں گی میرے اماں ابا کو بہت شوق ہے کہ ان کی بیٹی حافظہ ہو۔ میرے قاری صاحب بھی ہمارے اس فیصلے سے بہت خوش ہیں اور کہا ہے کہ آپ کا سارا خاندان جنت میں جائے گا والدین تو پہلے نمبر پر ہوں گے۔ میں یہ باتیں سن کر مزید پریشان ہو گئی کہ یہ اب جنت میں جائے گی نہ اس کی کبھی کوئی پوزیشن آئی ہے اس کو تو ٹھیک سے ریڈنگ کرنا بھی نہیں آتی۔ لیکن یہ سب مدرسے میں جانے کی وجہ سے ہوا اب یہ سب جنت میں جائیں گے۔
یہ سب باتیں جب اماں کے گوش گزار کیں اور اپنی اور ان کی جنت کے حصول کے لیے مدرسے میں داخلے کی پھر سے بات کی تو وہ سر پیٹ کر رہ گئیں اور کہنے لگیں اب تو قرآن پاک ختم بھی کر لیا پھر مدرسے جا کر کیا کرنا ہے۔ ویسے بھی اب آپ بڑی ہو گئی ہو اب تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مدرسے جانے کا۔ اماں نے بڑے ہونے کی بھی خوب کہی جب چھوٹے تھے تب بھی نہ جانے دیا چھوٹی ہو اب بڑی ہو۔ ہم صبر کا گھونٹ پی کر اپنی جنت کھونے کا غم مناتے رہے۔ لیکن کسی کو ہماری پرواہ کب تھی۔
وقت گزرتا گیا اور چھوٹے بہن بھائی دونوں روایت کے مطابق گھر میں ہی سپارہ پڑھتے رہے۔ تھوڑا سا بڑے ہوئے تو ساتھ والی باجی کی طرف جانے لگے ہم یہ سب دیکھ کر غصہ تو بہت ہوئے کہ ہماری دفعہ تو یہ اصول نہیں تھا۔ آپ اکیلی تھی اور اب یہ دونوں بہن بھائی ایک ساتھ جائیں گے تو فکر نہیں۔ آہستہ آہستہ یہ بات ذہن سے نکل گئی اور ہم اپنی پڑھائی میں مگن ہو گئے۔
ایک دن ڈرائنگ روم میں خوب رونق لگی دیکھی تو کیا دیکھتے ہیں کہ گھر کے سب بچے اونچی آواز میں سبق دہرا رہے ہیں اور ایک سرخ رنگ کی داڑھی والے موٹے سے چنی منی آنکھوں والے سر پر پگڑی باندھے ایک آدمی آنکھیں بند کیے بیٹھے تھے۔ ہم ابھی جائزہ لے ہی رہے تھےکہ چھوٹی ایک ٹرے میں دودھ کا گلاس لیے آ گئی ہم نے سائیڈ پر ہو کر رستہ دیا تو پگڑی والے آدمی جو آنکھیں بند کیے نجانے کون سا چلہ کاٹ رہے تھے چھوٹی کی "قاری صاحب یہ دودھ” کی آواز پر ہوش کی دنیا میں آئے اور گلاس تھام کر غٹاغٹ ایک ہی سانس میں ختم کیا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔ ہمارا یہ اب تک کی زندگی میں کسی قاری صاحب کو پہلی دفعہ نزدیک سے دیکھنے کا موقع تھا جو ہرگز اس معیار پر پورا نہیں اترا جو خاکہ اس ناپختہ ذہن نے تراشا تھا ۔
اب روزانہ مغرب کی نماز کے بعد سب بچوں کا شور سننے کے لائق ہوتا۔ ہم بھی آج کل کالج سے فری تھے سوچا کیوں نہ ایک دفعہ قاری صاحب سے دہرائی کر لی جائے اب تو گھر آتے ہیں کوئی کچھ نہیں گا۔ اماں سے اجازت طلب کی تو انہوں نے کہا ٹی وی پر چار بجے جو پروگرام لگتا ہے وہ دھیان سے دیکھا کرو تلفظ کی ادائیگی میں اگر کوئی کمی بیشی ہوئی تو ٹھیک ہو جائے گی۔ مطلب پھر ہمیشہ کی طرح انکار۔ اب ہم نے سوچا کیوں نے اپنا مسئلہ ابا جان کو بتایا جائے۔ ہماری بات کہنے کی دیر تھی کہ ابا جان نے یہ کہہ کر اجازت دے دی کہ قاری صاحب شریف اور بھلے مانس آدمی ہیں اور گھر آتے ہیں اس لیے ان کے پاس سبق دہرانے میں کوئی قباحت نہیں۔ ہم اچھلتے کودتے یہ خبر سب کو سنانے لگے کہ اب قاری صاحب کے پاس پڑھیں گے۔ کیونکہ ہماری دوستوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب شادی ہو تو اپنے استاد کو ایک جوڑا تحفے میں دیا جاتا ہے اب ہمارا تو کوئی استاد ہی نہیں تھا بس اماں اور تائی اماں تک کا سفر رہا۔ اب یہ ہی وہ قاری صاحب ہوں گے جن کو شادی پر جوڑا دیا جائے گا یہ بات جب میں نے اپنی تایا زاد کو بتائی تو وہ کھلکھلا کر خوب ہنسیں اور ساتھ میں پاگل کا لقب دے کر ہماری خوشی کو ملیا ملیٹ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بات ہو رہی تھی قاری صاحب سے پڑھنے کی۔ پہلے دن تو قاری صاحب اتنی بڑی شاگرد دیکھ کر حیران ہوئے کہ اس نے ابھی تک قرآن پاک نہیں پڑھا۔ ان کی غلطی فہمی دور کی اور بتایا کہ ہم اچھے سے دہرائی کرنے کے آزرومند ہیں۔ ہوتا کچھ یوں ہم ورق پہ ورق الٹاتے جاتے اور پڑھتے جاتے اچانک کہیں آ کر رک جاتے تو قاری صاحب کی جانب دیکھتے تو وہ آنکھیں بند کیے ہل رہے ہوتے غور کرنے پر معلوم ہوتا کہ وہ نیند میں جھوم رہے ہیں اور ہم اتنا زیادہ پڑھ کر غلطی کی نشاندہی کے منتظر ہوتے۔ اتنے میں سب بچے بھی ٹیوشن سے آ جاتے اور اپنا اپنا قاعدہ اٹھائے دوڑتے ڈرائنگ روم میں دھاوا بول دیتے بچوں کے شور شرابے سے قاری صاحب وقتی طور جھومنا بند کرتے اور سب کے سلام کا جواب دے کر سبق دہرانے کا کہہ کر پھر سے نیند کی وادی میں چلے جاتے جب کوئی بچہ ہلا کر کہتا ہم نے سبق پڑھ لیا ہے تو اس کو آنکھیں کھول کر اگلا سبق دے دیتے۔ ہم اپنی دہرائی سے قطعی طور پر مطمئن نہیں تھے۔ عجیب استاد ملے تھے جو بچوں پر دھیان نہیں دیتے تھے حالانکہ دیکھا گیا ہے کہ بچے پڑھائی سے بھاگتے ہیں لیکن یہاں معاملہ الٹ تھا۔
جمعہ کے دن قاری صاحب جلدی آ جاتے چھوٹی نے دبی دبی مسخراہٹ کے ساتھ قاری صاحب کے آنے کی اطلاع دی تو ہم وضو کرنے چل دیے۔ ڈرائنگ روم میں قدم رکھنے کی دیر تھی کہ ہماری ہنسی کے فوراے پھوٹنے کو بےتاب ہوئے لیکن اس وقت غیب سے مدد آئی اور ہم ہنسی پہ قابو پانے میں کامیاب ہوئے۔ سبق پڑھتے ہوئے ہم ترچھی نظر قاری صاحب پر بھی ڈال لیتے اور دل ہی دل میں خوب ہنستے۔ اصل میں ہم قاری صاحب کی سرخ رنگی داڑھی کے عادی ہو گئے تھے کہ آج سیاہ داڑھی دیکھ کر نجانے کیوں شیطان ہنسنے پر اکسا رہا تھا۔ اتنے میں سب بچے آ گئے اور ایک دوسرے کے کان میں باتیں کر کے زور زور سے قہقہے لگاتے۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں جب بڑے خود پر جبر کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں پھر بچوں کا تو بچپن موقع کی نزاکت نہیں سمجھ سکتا۔ قاری صاحب کو شک سا ہو گیا کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے بالکل ان کی داڑھی کی طرح تو کہنے لگے ہمارے استاد محترم کا حکم تھا کہ داڑھی سیاہ کر لو یوں آدمی جوان لگتا ہے ابھی ہمارے بچے چھوٹے ہیں ہم نے دین کی خاطر خود پر توجہ نہیں دی لیکن دنیا میں رہنے کے لیے بھی کچھ باتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔
جی بہت اچھا کیا ویسے بھی استاد کا حکم ٹالنا نہیں چاہیے۔ ہم تابعدار شاگرد بنے بولے کیونکہ باقی کے شاگرد کافی چھوٹے تھے وہ یہ وضاحت سمجھنے سے قاصر تھے اس لیے ہم نے سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے قاری صاحب کے دنیاداری کے تقاضے نبھانے کے عمل کو سراہا۔ لیکن خدا گواہ ہے قاری صاحب کے جانے کی دیر تھی کہ ہمارا ہنس ہنس کے برا حال ہو گیا۔ کم بخت شیطان بھی کبھی پیچھا نہیں چھوڑتا اب جس کا جو دل چاہے کرے اہنی داڑھی کو روح افزا سا رنگ چڑھائے یا پھر کالی گھٹا زلفوں سا رنگے ہمارا اس بات سے کیا تعلق۔ ہمیں بس کبھی کبھار یوں ہی ہنسنے کا دورہ پڑتا ہے آج بھی یہ دورہ اسی نوعیت کا تھا۔ اب ہم قاری صاحب کر سیاہ داڑھی میں دیکھنے کے
.عادی ہو گئے تھے
کافی دن ہو گئے آپ قاری صاحب سے پڑھنے نہیں جاتی پہلے اتنا شوق تھا اب کیا ہوا ہے۔ اماں نے پوچھا تو میں نے کہا کہ دہرائی مکمل ہو گئی ہے۔
ہم بتا نہیں سکے کہ ہمارے دل و دماغ میں جو قاری صاحب کا خاکہ بنا تھا وہ ویسا نہیں ہے۔ نہ وہ سبق ٹھیک سے پڑھا سکے نہ سن سکے. ہمیں قاری صاحب کے ماتھے پر محراب تو نظر آتا ہے لیکن ان کی ہر چیز پر جمی ندیدی نظریں محراب کا نشان نظر نہیں آنے دیتیں۔ نہ زبان کی نرمی ہے نہ الفاظ میں مٹھاس ہے بس ایک دھندا ہے جس کو وہ نمٹا رہے ہیں اپنے پیٹ کی خاطر۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn