Qalamkar Website Header Image

کلینک سے گھر تک کا رستہ

کچھ بچوں کو بات بات پر رونے اور ضد کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ گھر کے تمام افراد کی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ بچے کو کسی طرح سے بھلا پھسلا کر چپ کروایا جائے کیونکہ زیادہ رونے سے بچے کی صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا اور دوسرے بھی پریشان ہوتے ہیں کہ معصوم جان رو رو کر ہلکان ہو رہی ہے ابھی اس میں اتنی سمجھ بوجھ نہیں کون سی چیز اس کے لیے فائدہ مند ہے اور کون سی نقصان دہ۔ لہذا بچہ جس چیز کے لیے ضد کر رہا ہوتا ہے والدین اپنی استطاعت کے مطابق وہ چیز اپنے لخت جگر کو دلا دیتے ہیں۔ بچہ اپنی من پسند چیز پا کر ہنسنے مسکرانے لگتا ہے۔ لیکن بعض اوقات والدین کی جیب اس بات کی متحمل نہیں ہوتی کہ اولاد کی خواہش پورا کر سکے۔ ایسی صورت حال میں بچے کو پیار و شفقت سے چپ کروایا جاتا ہے۔ اور بچے کی توجہ اس چیز سے ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا ہے بچے ضد کرتے کرتے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیتے ہیں والدین کبھی خواہشات پوری کر دیتے ہیں اور کبھی پیار کی زبان میں سمجھا دیتے ہیں کہ ابھی یہ چیز خریدنا مشکل ہے کچھ دن انتظار کریں۔ بچہ پیار و محبت میں سمجھائی بات سمجھ جاتا ہے اور حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرنا سیکھ لیتا ہے۔ لیکن خواہشات کا انبار دن بدن بڑھتا چلا جاتا ہے۔ کبھی نامکمل حسرتیں ناامیدی کی جانب دھکیلتی ہیں تو کبھی نفس کی سرکشی تنگ کرتی ہے۔ بچپن میں ملنے والے پیار و شفقت کے بول بھی وقت کی تہہ میں دب کر رہ جاتے ہیں کیونکہ ہمارے بڑے سمجھتے ہیں کہ بچہ اب بڑا ہو گیا۔ اب اپنے مسائل خود نبٹنے کی عادت ڈالے۔ انسان کو زندگی کے ہر موڑ پر طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہم اپنے آس پاس دیکھیں تو ہر دوسرا بندہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو گا اور دوست احباب سے کہتا بھی نظر آئے گا کہ آج کل بہت پریشان ہوں ڈپریشن کی وجہ سے کام پر توجہ بھی نہیں دے پا رہا۔ طعبیت میں عجیب سی بےچینی اور اضطراب ہے۔ دوست احباب یہی مشورہ دیں گے کہ کسی اچھے سائیکاٹرسٹ کے پاس جاؤ اور اپنا ٹھیک سے علاج کراؤ۔ اب جن کی جیب سائیکاٹرسٹ کے کلینک تک جانے کی اجازت دیتی ہے تو وہ اس پر عمل بھی کرتے ہیں اور اپنے دل کا بوجھ معالج کے ساتھ بانٹ کر کچھ اینٹی ڈپریشن ادویات لے کر وقتی طور پر پرسکون ہو جاتے ہیں لیکن جن کی مالی حیثیت اتنی مضبوط نہیں ہوتی وہ ایسے مشورے بس سن ہی سکتے ہیں۔ میں خود کافی عرصہ سائیکاٹرسٹ اور نیوروسرجن کے چکر لگاتی رہی ہوں۔ دو سال پہلے سر پر چوٹ لگی جس کا نیوروسرجن نے ڈپریشن کہہ کر ٹریٹمنٹ کیا۔ جس مرض کا علاج کروانا تھا وہ ایک سائیڈ پر کر کے دوسرے مرض کو ڈھونڈ کر تجربے ہوئے تو یہی ہدایات جاری ہوئیں کہ خوش رہا کریں، ٹینشن نہ لیا کریں اور ساتھ ایک بڑے سے پرچے پر صبح و شام کی دوائی لکھ کر جان چھڑا لی جاتی تھی۔ اگر آپ پرائیوٹ چیک اپ کروائیں تو بات سننے کے لیے 5 منٹ دے دیے جاتے ہیں اگر سرکاری اسپتال ہو تو پھر ڈاکٹر مل جانا ہی غنیمت ہے کیونکہ ڈپریشن کا مرض جتنی تیزی سے بڑھا ہے اور بڑھ رہا ہے اس تعداد سے معالج بھی دن بدن اپنی فیس بڑھا رہے ہیں۔ اب تو آن لائن سیشن ہوتے ہیں۔ آپ اپنا ٹائم لے کر فیس مطلوبہ نمبر یا اکاؤنٹ میں بھیج دیں تو آن لائن ڈاکٹر آپ کی موبائل اسکرین میں موجود ہوتا ہے۔ ایک گھنٹہ کے پہلے سیشن میں آپ کے مسائل پوچھے جاتے ہیں اور پھر ان مسائل کے حل کے کیے دوسرے سیشن کی بکنگ کروانے کا کہا جاتا ہے۔ یوں یہ سلسلہ مریض کی فیس کی ادائیگی ہوتی رہے تو چلتا رہتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  عمران خان کو ایک یوٹرن لینا ہوگا

اب اس ساری صورت حال میں مریض خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ میرا علاج ہو رہا ہے اور ڈپریشن جیسے موذی مرض سے جلد جان چھوٹ جائے گی۔ مریض ایسا کیوں محسوس کرتا ہے؟ شاید اس لیے کہ وہ اپنی ذہنی الجھنیں، پریشانیاں اور دل کی باتیں معالج سے کر کے ذہنی دباؤ کم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اگر یہی سب باتیں اس کے گھر والے اور دوست احباب سن لیتے اور کسی ڈاکٹر کے پاس جانے کا مشورہ نہ دیتے تو وہ بہت جلد اس فیز سے نکل آتا۔ لیکن ہمارے پاس بچہ بڑا ہونے پر سوچ بدل جاتی ہے۔ اگر بچپن میں تسلی دلاسہ اور پیار و شفقت سے بچہ بہل سکتا ہے تو پھر بڑے ہو کر وہ ڈپریشن کے ساتھ ڈاکٹر کی آغوش میں کیوں پناہ لیتا ہے۔ ڈپریشن کا علاج اگر گھر سے شروع ہو جائے تو ڈاکٹر کے پاس جانے کی نوبت ہی نہ آئے۔ کیونکہ ہمیں عمر کے ہر دور میں اپنوں کے خلوص اور چاہت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم اپنی پریشانی معالج کو بتا تو سکتے ہیں معالج سن بھی لیتا ہے کیونکہ وہ سننے کی ہی فیس لیتا ہے لیکن آپ کو وہ اپنائیت نہیں دے سکتا جس کی طلب کے لیے کلینک تک کا رستہ اختیار کیا جاتا ہے کیونکہ اپنائیت کا رستہ کلینک سے نہیں اپنے گھر سے ملتا ہے۔ اپنے دوست احباب کو معالج کے پاس جانے کا مشورہ دینے سے پہلے ایک دفعہ خود اس کے دوست ڈاکٹر بن کر دیکھیں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس