لاہور کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا اور کافی کچھ کہا جا چکا ہے ۔ لیکن ان باتوں سے لاہور کو کوئی فرق نہیں پڑا الٹا وہ پھیل کر ایک طرف رائے ونڈ ہڑپ کرنے کے درپے ہے جبکہ دوسری طرف شیخو پورہ سے پینگیں بڑھا رہا ہے ۔ اگر بھارت کی سرحدی لکیر راستے میں حائل نہ ہوتی تو عین ممکن تھا کہ آج لاہور امرتسر کے بیچ میں سے گزر کر جالندھرکو آنکھیں دکھا رہا ہوتا ۔ لیکن مستقبل کے مور خین کا کہنا ہے کہ لاہور کا پھیلنا اپنی جگہ لیکن ایک دن ایسا بھی آ سکتا ہے کہ چھوٹا سا رائے ونڈ شریفوں کے بل بوتے پرپورے لاہور کو بحریہ ٹاؤن اور ڈیفنس سمیت ہڑپ کر جائے ۔لیکن مور خین نے یہ نہیں بتایا کہ یہ واقعہ قیامت آنے سے پہلے ہو گا یا قیامت کے بعد یہ سزا مقدر بنے گی ۔
****
کئی جگہوں پر کھدا ہوا لاہور دیکھ کر یہی لگتا ہے کہِ ’’ گزری ہے یہاں سے قیامت ابھی ابھی ‘‘۔کئی خاندانوں پر قیا مت گزرتی ہے تب جا کے لاہور پیرس بننے کی منزل تک ایک قدم آگے بڑھتا ہے۔ لیکن کیا کیجئے لاہور پیرس بننے کی طرف ایک قدم آگے بڑھتا ہے ، اور برسات کی پہلی بارش اسے وینس میں تبدیل کر دیتی ہے ۔ ویسے لاہور جس طرح کھودا اور گرایا جا رہا ہے ہمیں قوی امید ہے کہ کسی نہ کسی دن یہان سے کوئی نہ کوئی قبلَ مسیح کا پیرس نکل ہی آئے گا ۔مُلا عبدلقدوس خانپوری کا کہنا ہے کہ لاہور کا پھیلاؤ اسی صورت مین روکا جا سکتا ہے کہ اس کا نام بدل کر رائے ونڈ رکھ دیا جائے ۔ لیکن رائے ونڈ کا نام کیا رکھا جائے اس کا کوئی معقول جواب اس سے نہیں بن پایا۔ ہم نے بھی یہی مناسب سمجھا کہ رائے ونڈ والوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے ۔
****
لاہور نقشے پر عین اس جگہ واقع ہے جہاں لاہور لکھا ہوا ہے ۔ تازہ ترین سروے کے مطابق نیالاہور،ڈیفنس ، بحریہ ٹاؤن ، گلبرگ ، ماڈل ٹاؤن اور گارڈن ٹاؤن پر مشتمل ہے جس کے دائین بائین آگے پیچھے لاہورکے مضافات ہیں جن میں مصری شاہ ، شاد باغ ، مزنگ، لوہاری، چوہنگ سنت نگر،ساندہ، جلو موڑ ، دا روغہ والا، بیگم ہورا ، وسن پورہ ، بادامی باغ وغیرہ غیر اہم اور نا قا بل ذکر علاقے ہیں ۔ لاہور تقریباََ ان کے بیچوں بیچ واقع ہے اور ان علاقوں سے لاہور تک پہنچنے کے لئے مختلف قسم کے پل اور چوڑی سڑکیں بنائی گئیں ہیں باہر بھی انہی سڑکوں سے نکلا جا سکتا ہے۔ اصل لاہور سے بھاگنے کے لئے ائیر پورٹ شہر کے بیچوں بیچ بنایا گیا ہے تاکہ اشرافیہ کو عین وقت جہاد بھاگ نکلنے میں آ سانی ہو ۔ ارد گرد کے علاقوں سے لاہور تک پہنچانے کے لئے ایک خصوصی دو منزلہ سڑک بھی تعمیر کی گئی ہے جہاں وہ بس چلتی ہے جس پر کسی کا بس نہیں چلتا ۔ صرف بیس روپے میں آپ بس میں لٹک کر پورے شہر کی چھتوں کا نظارہ کر سکتے ہیں بلکہ تاروں پہ لٹکے کپڑے اور چارپائیوں پر بیٹھی خواتین تک گن سکتے ہیں ۔
****
لاہور کی اہم ترین جگہوں میں سے ایک ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی ہے جسے لاہور کے شہریوں کو ارد گرد کی عوام سے دور رکھنے کے لیے تعمیر کیا گیا ہے ۔ پہلے یہ ایک چھوٹی سی کالونی تھی لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کے پھیلاؤ میں اضافہ دیکھنے میں آ یا ۔ اب یہ ڈیفنس ہاؤسنگ کالونی سے ڈیفنس سٹی بن چکا ہے ۔ یہاں شرفاء بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں اس کے علاوہ بڑے بڑے عہدوں والے دو پائے بھی کثرت سے یہاں لا کر رکھے گئے ہیں ۔ ڈیفنس میں پولیس تھانے بھی ہیں جن کا تمام دن سائلوں کو سیلیوٹ کر نے میں گزر جاتا ہے ۔ یہاں کے رہائشیوں کے حساب سے ہر تھانے میں آئی جی لیول کا تھانے دار مقرر کیا جانا چاہئیے تھا لیکن قانونی سقم کے تحت پورے صوبے میں ایک ہی آئی جی تعینات کیا جا سکتا ہے ۔ اس لئے یہاں ہر تھانے دار کو آئی جی کے بجائے ’’ آیا جی ‘‘ کا رینک دیا جاتا ہے کیونکہ جو ملزم تھانے آنا پسند نہیں کرتے تھانیدار کو ان کے محل میں جانا پڑتا ہے ۔ اس کے لئے صرف تھانیدار کو ایک فون کرنا پڑتا ہے جس کے جواب میں وہ یہی کہتا ہے ’’ آیا جی ‘‘
****
لاہور کی ایک دوسری اہم اور ریٹائرڈ آبا دی ماڈل ٹاؤن ہے ۔ماڈل ٹاؤں کو انگریزوں نے آباد کیا اورایک باغ کے ارد گرد چھوڑ کر چلے گئے ماڈل ٹاؤن اسی باغ کے ارد گرد برسوں سے گھوم رہا ہے ۔ کہیں سے نکلیں گھوم پھرکر آپ دو تین گھنٹے میں پھر یہ باغ آپ کے سامنے ہو گا۔ انجان آدمی کو ماڈل ٹاؤن سے نکلنے کے لئے جیومیٹری کا ماسٹر ہو نا چاہئیے ۔ موبائل فون میں جی پی آر ایس سسٹم کی مدد سے اس بھول بھلیوں سے باہر نکل سکتے ہیں اگر لوکیشن چیک کرتے کرتے آپ کسی سے ٹکرا گئے تب بھی آپ کو ایمبولنس میں ڈال کر ماڈل ٹاؤن سے نکالا جا سکتا ہے
****
لاہور میں ہوائی جہاز کے ٹکٹ مہنگے ہونے کی وجہ سے ایک ہوائی ٹرین بھی چلائی جا رہی ہے جو لوگوں کے سر پر سے گزر جایا کرے گی ۔ ویسے اس دو سو ارب کی ٹرین کا اصل مقصد تو اس کے شروع ہو تے ہی عوا م کے سر سے گزر چکا تھا، اب صرف ٹرین گزرنا باقی ہے ۔ اس ٹرین کی حکومت کی طرف سے اتنی واہ واہ اور دا و تحسین کی گئی ہے کہ ہمیں یقین ہے کہ ٹرین کے چلتے ہی ملک کے آدھے قرضے اُتر جائیں گے ، کنواروں کی شادیاں ہو جائیں گی اور بیویاں خاوند کی تابعدار ہو جائیں گی ۔ ہمیں یہ بھی یقین ہو چلا ہے کہ اس ٹرین کے چلنے سے ایسی خوشگوار ہوا چلے گی کی مریض گھر بیٹھے بیٹھے صحت یاب ہو جایا کریں گے اور ڈاکٹر ، ڈاکٹری چھوڑ کے شاعر بن جا ئیں گے یا جنگلوں میں نکل جائیں گے کیونکہ جانور بھی توبیمار ہوتے ہوں گے ۔ ویسے سرکاری ڈاکٹر سے علاج کرا کے یہی لگتا ہے یا تو آپ جانوروں کی کسی قسم سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر ڈاکٹر غلطی سے انسانی ہسپتال میں آ بیٹھا ہے۔
****
لاہور میں بے شمار ہسپتال ہیں لیکن سیاستدانوں کا کوئی ہسپتال نہیں ۔ اس لئے مجبوراََ سیاستدانوں کو نزلہ زکام ، دانت رگڑائی ، معدہ صفائی و دل کُشائی جیسے معاملات کے لئے یورپ کے ہسپتالوں تک رجوع کرنا پڑتا ہے ۔لاہور کے ہسپتالوں میں جو ڈاکٹر بھرتی کئے جاتے ہیں وہ کسی کی نہیں سنتے اور نہ ان کی کوئی سُنتاہے۔ اس لئے ڈاکٹر سال کے زیادہ دن سڑکوں پرپائے جاتے ہیں ۔ جوں جوں لاہور میں ہسپتالوں کی تعداد میں اضافہ ہو اہے ۔ قبرستانوں پہ آبادی کا بوجھ بڑھتا چلا گیا ہے ۔ مظفر گوند نے اس مسئلے ایک حل یہ بھی تجویز کیا ہے کہ ہر قبر کے کُتبے پر مرنے والے کے ڈاکٹر کا نام ضرور کندہ کیا جائے ۔ اگر ایسا ہو سکے تو ہمیں یقین ہے زیادہ تر مریض اپنی طبعی موت ہی مرا کریں گے ۔
****
لاہور میں بہت کثیر تعداد میں تھانے بھی ہیں جنہوں نے عوام کو ان کی اوقات میں رکھنے میں قابل ذکر کردار ادا کیا ہے ۔تھانے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ آدمی بھی مڈل پاس کانسٹیبل سے سر اور گردن جھکا کے یوں بات کرتا ہے جیسے فوجی سسر سے بے روزگارداماد۔ایمرجنسی میں تھانے سڑک پر بھی کھل جاتے ہیں ۔ جس کے لئے دو تین پولیس والوں اور مار کھانے والے ایک عدد شہری کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ۔ لیکن جب سے موبائل فون میں کیمرے عام ہوئے ہیں ۔ یہ تھانوی رواج کم ہو تا جا رہا ہے ۔ زیادہ تر شہریوں کو کُٹ اب تھانے کے اندر ہی لگائی جاتی ہے تاکہ تھانے دار اور مضروب کی عزت نفس بحال رہے ۔ تھانیدار لگنے کے لئے پولیس میں ہونا ضروری نہیں ۔ تھانیدار کا بھائی بیٹا حتیٰ کہ بیوی بھی تھانیدار ہی ہو تی ہے ۔ تھانیدار نی صاحبہ علاقے کی تمام ڈکیتیوں ، چوریوں اور دوسرے جرائم کا حساب لگا کے ہفتہ کے حساب سے اپنا حصہ وصول کر لیتی ہے ۔یہ وہ واحد جنس ہے جو تھانے دار کا بھی بغیر ایف آئی آر کاٹے اینکاؤنٹر کر سکتی ہے ۔ اس لئے زیادہ تر تھانے دار گھر جانے کی بجائے چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی کو ترجیح دیتے ہیں ۔ بیو ی جب تھانے بھی آنے جانے لگے تو فوراََ تبادلہ کرا لیتے ہیں ۔
****
لاہور میں تھانے ہیں تو ظاہر ہے ڈاکو بھی پائے جاتے ہیں ۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ رات دیر گئے گھر واپس جاتے سوچتے ہیں کہ کس سڑک سے جائیں کیونکہ ایک طرف پولیس کا ناکہ ہو سکتا ہے تو دوسری طرف ڈاکوؤں کا ۔ لاہور کے ڈاکو انتہائی اصول پسند ہیں انہیں لوٹنا ہو تو پولیس ناکے کی حدود سے تین چار سو گزدور اپنی واردات فرماتے ہیں ۔ اسی طرح پولیس بھی اُن کے کام میں دخل نہیں دیتی ۔ کیونکہ پولیس کا کام تب شروع ہو تا ہے جب جرم مکمل ہو چکا ہوں اور ڈاکو اپنی کمین گاہ میں چھپ چکے ہوں، تاکہ پولیس انہیں تلاش کر نے کی کاروائی شروع کرے ۔ لیکن عموماََ پولیس کو انہیں تلاش کر نے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ ان کا حصہ خود بخود پہنچ جاتا ہے ۔
******
زاہد شجاع بٹ پیشہ ور سے زیادہ شوقیہ مزاح نگار ہیں ۔ ادب کے جراثیم بچپن ہی میں پائے جاتے تھے جو قریباََ چھ سال پہلے ایکٹیو ہوئے ۔ روزنامہ دن میں کالم نگاری سے لے کر دن نیوز چینل انفوٹینمنٹ پروگرام ’’ واہ واہ ‘‘ کی سکرپٹ نگاری سے ہوتے ہوئے اے پلس کے پروگرام آدھا کار سیزن دو کے لکھاری اور پھر ڈاکٹر یونس بٹ کے ساتھ ہم سب امید سے ہیں تک ان کا چھ سالہ سفر اب اگلی منزل کی طرف بڑھنے کو ہے ۔ کالموں کا مجموعہ "خبر یہ ہے کہ‘‘ نام سے چھپ چکا ہے۔ اگلی کتاب ترتیب کے مراحل میں ہے ۔ قلم کار میں آپ ان کے چبھتے اور مزاح سے بھرپور انشائیے اور طنزائیے پڑ سکیں گے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn