Qalamkar Website Header Image

ابھی سوچنا جرم نہیں – ظفر منہاس

کافی عرصہ ہوا جب میں بھی مطالعہ پاکستان نامی کتاب کا حافظ ہوا کرتا تھا۔مجھے بھی ہر ہندو قابل نفرت اور حقیر نظر آتا تھا۔ 
گو کہ میری کسی ہندو سے ملاقات نہ تھی مگر ہر ہندو مجھے دشمن لگتا تھا۔ہر غیر مسلم مجھے غلیظ اور کم تر نظر آتا تھا۔میں حیران ہوتا تھا کہ لوگ پاگل ہیں یا ان تک سچ نہیں پہنچا ؟ 
پوری دنیا کی آبادی میرے عقیدے پر کیوں نہیں ؟ 
سب مجھ جیسا کیوں نہیں سوچتے ؟مجھے بھی غصہ آتا تھا۔سر تن سے جدا والا خود ساختہ قانون دل کو اچھا لگتا تھا۔ 
نسیم حجازی کے ناول والے ہیرو ہی مجھے انسان لگتے تھے باقی سب کچرا مال۔ 
اسلامی تاریخ میں بیٹھا ہر بونا مجھے قد آور لگتا تھا۔ 
میرے علما کرام نے ایسا مضبوط عقیدہ ٹھونسا کہ مجھے باقی سارے مسلمان جھوٹے لگتے۔
مجھے لگتا کہ سچ کا سورج صرف میرے گھر کی کھڑکی سے ہی نظر آتا ہے۔
میری تاریخی کتابیں سچی اور میرا عقیدہ ہی ارفع ہے۔ 
میں چاہتا تھا کہ جب میرے عقیدے میں کوئی جھول نہیں۔
میری دلیل ہی آخری سچ ہے تو باقی مسلمان مجھ جیسے کیوں نہیں سوچتے ؟
ایک دن مجھے دوست نے سمجھایا کہ تم تو کافر ہو۔ 
صراط مستقیم پر آ جاؤ۔
میں دوست کے بڑے مولوی سے ملا۔
بری سرکار۔ داتا صاحب۔ شاہ رکن کے دربار دیکھے۔ 
علی علی کرتے ملنگ بھی ملے اور اللّه ہو والے سر فروش بھی۔ 
اپنے ہاتھوں سے اویس قرنی کے قبر کی مٹی بھی چکھی۔ 
مولا علیؑ نے جس مسجد میں پہلی مرتبہ خود امامت کی۔ 
اسی جگہ سجدہ بھی دیا۔ 
آگ اور خون کے حسینی ماتم دیکھے۔ 
میلاد شریف کی کھیر بھی پکائی۔ 
میں کرسچین کے فادر سے ملا۔ 
میں کھتری ہندو سے ملا۔ 
میں برہمن ہندو سے ملا۔۔۔ 
میں پنجا صاحب کا پرساد بھی کھانے گیا۔
ہر اتوار کو سوشلسٹ انقلاب کی محفل دیکھی۔ 
مارکس اور لنین والے کامریڈ ملے۔ 
لال سلام کا اصل مطلب سیکھا۔ 
مجھے بدھا کے یوگی بھی ملے۔ 
میں نے یوگا کے آسن بھی کئے۔ 
راستے میں وہ لوگ بھی ملے جن کا خدا کہیں گم تھا اور وہ اسے ڈھونڈ رہے تھے۔ 
 طالب جوہری۔ طاہر القادری۔ ڈاکٹر اسرار احمد سے لیکر مولانا طارق جمیل تک سب کو ملا اور سنا۔ 
سب اچھے۔ سب بہترین
ستر سال سے ہم نفرت کا سبق سیکھ رہے ہیں۔ 
 ملک کی گلیوں میں خون بوتے رہے ہیں۔ وہاں سے اب نفرت سے بھرے سر اگ چکے ہیں۔ 
مارو۔ مارو
کافر۔ کافر 
چیختی اور دھاڑتی آوازیں ہیں
بس۔ ایک ہی بات کہتے ہیں اسلام امن کا دین ہے اور نہ اسلام نظر آتا ہے نہ ہی امن۔
سادہ سی بات جو ابھی تک سمجھ سکاہوں کہ کوئی بھی مذہب ہو یا عقیدہ ہو۔ 
 اگر اس میں انسان مارنے کا صاف یا چھپا ہوا نظریہ موجود ہے۔ تو ابھی اس عقیدے کو مزید سیکھنا ہے وہ خیال پختہ نہیں۔ وہ خام خیالی ہے۔
جس مذہب یا عقیدے میں انسانیت کا احترام نہیں۔
وہ ابھی ترقی پذیر ہے۔
انسان کو مار کر عقیدہ کیسے جیتا جا سکتا ہے ؟ 
انسان کے دل میں سنا ہے خدا کا گھر ہوتا ہے۔ 
انسان سے نفرت کر کے سچے خدا سے محبت کیسے ہو سکتی ہے ؟
سوچیں۔ ابھی سوچنا جرم نہیں

حالیہ بلاگ پوسٹس