مظفر گوند سے آپ کبھی بھی بحث نہیں کر سکتے اور نہ ہی کبھی اس سے بحث میں جیت سکتے ہیں ۔
اس کے بقایا بچے ہوئے سب دوستوں کا یہی ایمانِ محکم ہے اسی لئے ہم اس سے دور دور ہی رہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس کے خود ساختہ علم و فضل اور مباحثے کا اتنا شہرہ اور دبدبہ ہے کہ رشتہ دار اکثر دعوتوں میں اسے بلانا بھول جاتے ہیں۔ مگر وہ بھی اپنی ہی قسم کا ڈھیٹ انسان ہے ، بن بلائے بھی پہنچ جاتاہے اور پھر کس کی ہمت ہے کہ اسے خوش آمدید نہ کہے؟
میری بات کو ہنسی میں مت ٹالیں، آپ کا کبھی اس سے پالا ہی نہیں پڑ اورنہ جس علم میں آپ یکتا ہیں یا جس بھی موضوع پر مکمل دسترس رکھتے ہیں اسی موضوع پر بحث کے دوران نہ صرف وہ آپ کو آسانی سے ہرا سکتا ہے بلکہ آپ کو اپنے یعنی آپ کے اپنے بال نوچنے پر مجبور بھی کر سکتا ہے ۔
اب آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ مظفر گوند بہت پڑھا لکھاہے اورکتنے ہی جیّد علماء کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیاہوگا یا پھر ارسطو سے لے کر ہیگل بلکہ ان سے بھی آگے تک کی تمام تصانیف حفظ کر چکا ہوگا۔ بس یہیں پر آپ مار کھا گئے ۔
یاد رکھیئے کسی بھی بحث میں جیتنے کے لئے اور اپنے آپ کو عامل و فاضل ثابت کر نے کے لئے علم کی بجائے جوشِ خطابت اور سائیلنسر فری دھماکہ خیز آواز کی ضرورت ہوتی ہے جو مخاطب و مخالف کے کانوں میں توپ کے گولے کی طرح لگے ۔ فرض کریں آپ کسی وجہ سے بلکہ بدقسمتی سے مظفر گوند سے بھڑ ہی گئے ہیں کیونکہ جس دعوت میں آپ شریک ہیں اور جہاں آپ اپنی نفسیات میں ماسٹرزڈگری کے زور پر انسانی نفسیات کے حوالے سے حاضرین کو نئے نئے نکتے سمجھا رہے ہیں اور جملہ محفل آپ کے خیالات اور بیان کے سحر میں کھو چکی ہیں ، وہیں پر اچانک مظفر گوندپان چباتا ہوئے کمرے میں داخل ہوتاہے ۔ آپ کی آواز اس کے کانوں میں پڑی نہیں کہ اس کی حسِ تخریب کو تحریک ہو گئی ۔بڑے اطمینان سے آپ کے قریب آکر بیٹھ جائے گا ۔آپ کے بیان کے دوران دو تین دفعہ تعجب نما استہزاء سے آپ کی طرف دیکھے گا ، پھر حاضرین کو دیکھتے ہوئے ہاتھ کو سوالیہ انداز میں موڑ موڑ کر آپ کی طرف توہین آمیز اشارے کرے گا ۔ لازماََ آپ اس کی طرف متوجہ ہوں گے اور اپنا نکتہ، جو آپ بیان کر رہے تھے ، بھول جائیں گے ۔ پھر آپ اگر اس سے یہ پوچھنے کی حماقت کر بیٹھے کہ کیا آپ کو میری بات سے اتفاق نہیں ہے؟ تو سمجھ لیجیئے آپ نے اپنے علم و فضل کی گردن پر چھری پھیردی ۔
سب سے پہلے وہ آپ کے بیان کئے گئے نکتے کو ردّ کرتے ہوئے یہ جملہ کہے گا ’’ یار! آپ کو تو کچھ پتہ ہی نہیں ۔ یہ بات ایسے نہیں ہے بلکہ..‘‘ پھر آپ کی بیان کی گئی تھیوری کی دھجیاں اُڑانی شروع کر دے گا۔ اس کے لئے اسے موضوع کا علم ہونا لازمی نہیں کیونکہ اپنی گرجدار آواز، ہاتھوں کو فضا میں لہرانے کا انداز او رباربار آپ کی علمیّت پر رکیک حملے ہی اس کا آلہ حرب و بحث ہیں ۔ مثلاََآپ نے ابھی ابھی بیان کیا تھا کہ انسانی ذہن مختلف قسم کے واہمے گھڑ کر کئی تصورات بنا لیتا ہے اورانہیں ایک دن حقیقت سمجھنے لگتا ہے ۔ وہ یہ جملہ پکڑ لے گااور گھرکنے کے سے انداز میں آپ سے واہمے اور تصور کا مطلب پوچھے گا ۔ آپ سوچ کر جواب دینے کی کوشش کریں گے مگر وہ آپ کے بولنے سے پہلے ہی کہہ دے گا کہ ایسی کوئی بات کرنے سے پہلے آپ کو واہمے اور تصور میں فرق پڑھ لینا چاہیئے تھا، عینک لگانے سے انسان علامہ نہیں ہو جاتا۔
آپ کے دماغ میں ایک چھوٹا سا بھونچال آئے گا، مگر آپ بہ تقاضائے اخلاق چپ رہیں گے اور عینک اتار کر جیب میں ڈال لیں گے۔تب وہ آپ کو بتانا شروع کرے گاکہ واہمے اور تصور کو الگ الگ نہیں کیا جا سکتا اور کیا بھی جا سکتا ہے کیونکہ جوزف ہیڈلی نے اپنی کتاب’’ سائیکل آلو جی‘‘ میں لکھا ہے کہ کبھی تصور واہمہ ہوتا ہے اور کبھی واہمہ تصور ۔ دونوں ایک دوسرے سے ملتے بھی ہیں اور الگ الگ بھی رہتے ہیں اور یہ جو واہمہ ہوتا ہے نا………..
اب آپ کے حیران ہونے کی باری ہے کیونکہ آپ نے اس مصنف کا نام تک کبھی نہیں سنا اور نہ ہی ایسی کوئی کتاب دیکھی ہے۔ لازماََ آپ مظفر گوند کا بیان ختم ہوتے ہی اس سے مصنف کے بارے میں پوچھیں گے ، یہ آپ کی دوسری غلطی ہو گی ۔
مظفر گوند چونک کر آپ کی طرف حیرت سے دیکھے گا ۔پھر کہے گا ’’ جوزف ہیڈلی کو نہیں جانتے ؟ اوریہ بات بھی اس انداز میں کہے گا جیسے کوئی کسی کو یہ کہہ دے کہ بھائی! آپ کی پینٹ پیچھے سے پھٹی ہوئی ہے۔ پھر پینترا بدل کر پوچھے گا کہ آپ نے تو پھر رچرڈ مولنگ( مظفر گوندکا ایجاد کردہ ملنگ کا انگریزی متبادل) کا بھی نام نہیں سنا ہو گا اور نہ ہی اس کی مشہورِ زمانہ کتاب ’’دی سائیکلوہینڈل ‘‘پڑھی ہو گی جو 11اگست 1995میں انگلینڈ سے چھپی تھی؟( یہ مظفر گوند کی سالی کی شادی کی تاریخ ہے۔ ایسے کئی تاریخی حوالے اسے اپنے سالوں ، بھائیوں یا اپنی شادی کے حوالے سے ازبر ہیں ۔ پچھلے چند سالوں میں اس نے ان حوالہِ جات میں اپنے بچوں کی تاریخِ پیدائش کا بھی اضافہ کر لیا ہے )
آپ بھی چونکہ نفسیات میں ماسٹرز ہیں، فوراََ اصرار کریں گے کہ ایسی کوئی کتاب نفسیات کی تاریخ میں چھپی ہی نہیں۔ یہاں وہ آپ کو حیرت سے دیکھے گا اور سر مایوسی میں ہلاتے ہوئے دوبارا لاعلمی کا طعنہ دے گا ورنہ آپ کی دماغی حالت پر شک کرتے ہوئے کسی معالج کے پاس جانے کا مشورہ تو ضرور دے گا۔
آپ اب ذرا سخت لہجے میں اس بات پر پھر زور دیں گے کہ اگر یہ کتابیں نہیں بھی پڑھیں تو کیا؟ دوسری بہت سی کتابیں آپ پڑھ چکے ہیں اوراس کے ساتھ ہی اپنی پڑھی ہوئی کتابوں کے نام معہ مصنف گنوانے بیٹھ جائیں گے مگر وہ درمیان ہی میں آپ کوٹوک دے گا اور سامنے پڑی میز پر ایک گھونسہ مار کر ( جس سے ایک آدھ گلاس یا کوئی دوسرا برتن ٹوٹ سکتا ہے) کہے گا کہ جس شخص نے یہ کتابیں نہیں پڑھیں وہ کیا جانے نفسیات کی گہرائیاں( یہاں بندر اور ادرک کی مثال بھی دے گا)، ہم سے پوچھئیے راتیں برباد کر دیں فلسفہ اور نفسیات پڑھ پڑھ کر( رات گئے تک مجید حجام کی دکان کے تھڑے پر تاش کھیلنا ااس کا معمول ہے )۔ اب آپ کو اپنے دماغ میں زلزلے کے شدیدجھٹکے محسوس ہوں گے مگر فکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ یہ بلند فشارِخون کی بدولت ہو تا ہے ۔
آخری وار یہ کرے گا کہ آپ سے پوچھ بیٹھے گا کہ نفسیات میں ڈگری کہاں سے لی تھی اور کتنے میں لی تھی ؟ یہ بات وہ بظاہر ازراہِ مذاق کرے گا مگر آپ غصے میں آکر اسے کچھ بھلا برا کہہ بیٹھیں گے لیکن وہ ٹھنڈے مزاج کا آدمی ہے فوراََ کہے گا کہ یار!آپ تو غصہ ہی کر گئے ۔ علمی بحث ٹھنڈے دماٖغ کا کام ہے ، آرام سے دلیل کے سا تھ بات کریں ، ارے آپ تو غصے میں پھر لال پیلے ہو رہے ہیں۔ کھڑے کیوں ہیں بیٹھ جائیں نا! ۔
اب آپ بالکل بپھر چکے ہیں اورغصے میں کھڑے مٹھیاں بھینچ ر ہے ہیں مگر وہ آپ کا کاندھا پکڑ کر پھر بٹھا دے گاکہ ابھی تو میری بات ہی ختم نہیں ہوئی تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ واہمے اور تصور میں……۔
اب آپ کا پیمانہِ صبر لبریز ہو چکا ہے اور متانت چہرے سے بالکل غائب ہو چکی ہے آپ اس کا ہاتھ جھٹک کر اٹھ کر کمرے سے چلے جاتے ہیں یا پھر اس گھر ہی سے نکل جاتے ہیں ۔ آپ کے کمرے سے نکلتے ہی مظفر گوند بقایا حاضرین کی طرف حیرانگی سے دیکھ کر کہے گا کہ ان صاحب کو کیا ہوا ، میں تو دلیل سے بات کر رہا تھا؟ مگر کوئی جواب نہیں دے گا۔
پھرحاضرین بھی ایک ایک کر کے کمرے سے نکل جائیں گے اور مظفر گوند وہاں اکیلا رہ جائے گا ، کسی اکھاڑے میں جیتے ہوئے پہلوان کی طرح۔
زاہد شجاع بٹ پیشہ ور سے زیادہ شوقیہ مزاح نگار ہیں ۔ ادب کے جراثیم بچپن ہی میں پائے جاتے تھے جو قریباََ چھ سال پہلے ایکٹیو ہوئے ۔ روزنامہ دن میں کالم نگاری سے لے کر دن نیوز چینل انفوٹینمنٹ پروگرام ’’ واہ واہ ‘‘ کی سکرپٹ نگاری سے ہوتے ہوئے اے پلس کے پروگرام آدھا کار سیزن دو کے لکھاری اور پھر ڈاکٹر یونس بٹ کے ساتھ ہم سب امید سے ہیں تک ان کا چھ سالہ سفر اب اگلی منزل کی طرف بڑھنے کو ہے ۔ کالموں کا مجموعہ "خبر یہ ہے کہ‘‘ نام سے چھپ چکا ہے۔ اگلی کتاب ترتیب کے مراحل میں ہے ۔ قلم کار میں آپ ان کے چبھتے اور مزاح سے بھرپور انشائیے اور طنزائیے پڑ سکیں گے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn