میں احمد پور شرقیہ کے ٹاٹ والے پرائمری سکول سے پنجم کا امتحان بڑی مشکل سے پاس کر کے ہائی سکول پہنچ ہی گیا۔ گورنمنٹ ایس اے ہائی سکول کے بڑے بڑے گراؤنڈ اور اچھی بلڈنگ سے جہاں دل خوش ہوا وہاں انگریزی کے استاد ماسٹر قدوس صاحب اور ریاضی کے استاد ماسٹر اللہ داد صاحب کی گرجدار آواز اور اس سے زیادہ ان کے ڈنڈے اور مار آج بھی یاد ہے۔اس زمانے میں انگریزی چھٹی کلاس سے پڑھائی جاتی تھی اور میری ویسے بھی انگریزی اور ریاضی سے دشمنی تھی بالکل سمجھ نہیں آتی تھی اور روز مار کھانا معمول تھا۔
ایک دن ماسٹر قدوس کلاس میں آئے تو ان کےہاتھ میں ایک لفافہ تھا جس میں سے انہوں نے کچھ نکالا تو وہ گتے کے چھوٹے ٹکڑوں پر کچھ لکھ کر ان میں رسی ڈال کر ہار جیسا بنایا گیا تھا۔ ماسٹر صاحب نے حسب معمول سبق سننا شروع کردیا ۔کیونکہ ہم دوست نکموں کی لائن میں سب سے پیچھے بیٹھتے تھے ۔ہم سے آگے بھی کچھ ہم جیسے نکمے تھے سبق نہ آنے پر ان میں سے دو کو کھڑا کر دیا اور ان کے گلے میں ہار ڈال دیے جن پر لکھا تھا "نکما کام چور” اور کلاس کے باہر کھڑا کردیا۔
بڑی عجیب صورت حال تھی باہر ہمارے دونوں کلاس فیلوز گلے میں” نکما، کام چور” کا ہار پہنے سر جھکائے کھڑے تھے ۔آتے جاتے سکول کے تمام لڑکے اور استاد صاحبان بھی یہ سب دیکھ رہے تھے اور اندر خوف اور شرم سے ہمارے پسینے چھوٹ رہے تھے کہ اگلی باری اب ہماری ہوگی۔شکر ہے اس دن ہم بچ گئے۔اگلے دن ہم سب نے سر قدوس کا سبق یاد کیا ہوا تھا اور پھر وہ ہار کسی نے نہ پہنا۔
پولیس کی نوکری میں آنے کے بعد ان علاقوں میں جہاں کرائم زیادہ ہوتا تھا میں یہی عمل دہراتا تھا اور اس کا نتیجہ کمال ہوتا تھا۔
میں نے 20 ، 25 چور ،ڈاکو اور منشیات فروش اکٹھے کرنے ،سب کو ہتھکڑیاں لگا کر ان کے گلے میں بے غیرت چور ،بے غیرت ڈاکو ، بے غیرت منشیات فروش لکھنا اور علاقہ کے مشہور چوکوں میں پہلے ان کو چکر لگوانا اور ان سب نے بلند آواز میں کہنا کہ ہم بے غیرت چور ،ڈاکو اور منشیات فروش ہیں۔پھر اگلا چوک اور پھر اس سے اگلا۔ میرے اس عمل سے یہ ہوتا کہ علاقہ میں چوری بدمعاشی تقریباً ختم ہو جاتی تھی۔ شکر ہے ان دنوں موبائل فون میں کیمرے نہیں ہوتے تھے۔
علاقہ میں ایس ایچ او کی دہشت کرائم کو روکنے میں بہت کارگر ہوتی ہے اور اگر ایس ایچ او ایماندار بھی ہو تو سونے پر سہاگہ ہوتا ہے مگر سیاستدان اور افسران ایماندار ایس ایچ او کو کم ہی پسند کرتے ہیں۔ایماندار پولیس ملازمان دفتر میں ہی پائے جاتے ہیں کیونکہ ایمانداری اور تھانہ کا کوئی تال میل نہ ہے۔تھانہ کوٹ سبزل کی تعیناتی میں ایک ایس ایس پی تشریف لائے ذولفقار چیمہ جو بہت زیادہ سخت طبیعت، با اصول اور ایماندار تھے۔ جرائم پیشہ افراد ان کے نام سے کانپتے تھے کسی ایم این اے، ایم پی اے کی جرات نہیں تھی کہ ان کو غلط کام کہنے کا سوچ بھی جائے۔ چیمہ صاحب کی ایمانداری کی میں قسم دے سکتا ہوں جب وہ آئے تھے تو ان کے ساتھ ایک بیگ تھا اور جب سات ماہ بعد ٹرانسفر ہو کرگئے تو بھی ایک بیگ ہی تھا۔ حالانکہ رحیم یار خان وہ ضلع ہے جہاں کافی ایسے افسران آئے جو ایک بیگ کے ساتھ آتے تھے اور ٹرانسفر پر تین تین ٹرک بھر کر سامان لے جاتے تھے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب 1992 میں سندھ میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن ہو رہا تھا اور سندھی ڈاکو جنگلوں سے بھاگ کر صادق آباد کے علاقہ میں پناہ لینے آرہے تھے۔اے ایس پی اللہ ڈینو خواجہ بھی انہی دنوں بطور حلقہ آفیسر صادق آباد میں پوسٹ تھے۔ وہ بھی کیا دن تھے ۔کوئی دن ایسا نہیں ہوتا تھا جب ڈاکوؤں اور پولیس کے درمیان فائرنگ نہ ہوتی ہو۔ ان مقابلوں میں ہمارے جوان شہید بھی ہوئے، زخمی بھی ہوئے اور ہم نے بہت سے ڈاکو بھی جہنم رسید کیے۔ اللہ ڈینو خواجہ بھی کافی مقابلوں میں اور ریڈز میں میرے ساتھ ہوتے تھے اور سب سے آگے ہوتے تھے۔ چیمہ صاحب کی ایک بات مجھے آج بھی یاد ہے کہ جو شخص مخلوق خدا کے لیے عذاب ہو اسے معاف نہیں کرنا چائیے۔
سندھ بارڈر کے ساتھ شر بلوچ بہت جرائم پیشہ ہیں جو ڈکیتی، قتل اور اغوا برائے تاوان جیسے جرائم کرتے تھے۔ان کے تین ڈاکو مقابلے میں مارے گے ہمارا ایک جوان بھی زخمی ہوا چیمہ صاحب نے حکم دیا ان کی لاشیں صادق آباد چوک میں لٹکا دیں۔
میں نے اور اے ڈی خواجہ اے ایس پی نے بڑی مشکل سے چیمہ صاحب کو راضی کیا کہ یہ نہ کریں تو وہ بولے کہ چلو لاشیں چوک میں رکھ دو۔ پھر وہ خود صادق آباد آئے اور چوک میں لوگوں سے خطاب کیا کہ ان ڈاکوؤں سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں پولیس آپ کے ساتھ ہے ان کے اس عمل سے وارداتوں میں واضح کمی ہوئی۔ اگلے دن کے اخبارات میں لاشیں چوک میں لٹکانے کی خبریں بھی لگ گئی تھیں۔ ان خبروں کا یہ اثر ہوا کہ جرائم پیشہ افراد ڈر گئے۔ خاص طور پر لاشیں لٹکانے والی بات پر زیادہ خوف زدہ تھے۔ڈر اور خوف سے معاشرے میں جرائم کی روک تھام ہوتی ہے یا پھر لوگوں میں تعلیم اور قانون سے آگاہی سے جرائم میں کمی ہوتی ہے۔
سعودیہ میں سرعام سر قلم کرنا یا سزائیں دینا اس کی واضح مثال ہے جبکہ دیگر ممالک میں زیادہ مالی سزا دینے سے بھی لوگ محتاط ہو جاتے ہیں خاص طور پر ٹریفک سے متعلقہ جرائم میں۔ اس طرح قانون کی پاسداری ،امیر اور غریب کے لیے یکساں قانون سے بھی لوگ جرم کرنے سے ڈرتے ہیں۔پولیس کا لتر ،ریمانڈ جسمانی کی تکلیف اور تھانے کے خوف سے بھی لوگ ڈرتے تھے۔مگر پاکستان میں امیر کبیر اور با اثر ملزمان اور مجرمان کی گاڑیوں پر پھول نچھاور کیے جاتے ہیں جو عوام دیکھتے ہیں۔منشیات اور کرپشن کے جرائم میں ملوث ملزمان بغیر ہتھکڑیوں کے کاٹن کے سوٹ میں ملبوس بڑی بڑی گاڑیوں سے اترنے کے بعد عدالت میں داخل ہونے سے پہلے اور بعد میں میڈیا سے خطاب فرماتے ہوئے اداروں کے بارے میں مادر پدر آزاد گفتگو فرماتے ہیں ۔ یہ ملزمان اور مجرمان عدالت کے جج صاحبان سے سوال جواب کرتے ہیں، ججز کا مذاق اڑاتے ہیں حکومت کو گالیاں دیتے ہیں اور ساتھ کھڑے وکلا اور لوگ نعرہ بازی کرتے ہیں۔ان کی ویڈیو بنتی ہے اور فوری طور پر سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہے ۔پتہ نہیں عدالت میں اِن کو ویڈیو بنانے کی اجازت کون دیتا ہے ؟جج صاحبان میں اتنی ہمت ہی نہیں ہوتی ہے کہ عدالت کے تقدس کی حفاظت کر سکیں۔
یہ حالات دیکھ کر لوگوں کے دل میں اگر کوئی ڈر یا خوف تھا تو وہ بھی ختم ہو گیا ہے یا ختم ہو رہا ہے۔کاش ہمارے ملک میں بھی ایسا قانون ہو جس میں امیر اور غریب سے یکساں سلوک ہو ۔پولیس کسی بھی سیاستدان کے در کی لونڈی نہ ہو اور نہ ہی اپنے افسران کے ناجائز حکم مانے۔ صرف قانون پر عمل کرے۔جج صاحبان آزادی سے اور بغیر کسی دباؤ اور لالچ کے فیصلے کریں۔ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اپنے اپنے کرپٹ لیڈران کی کرپشن کو چھپانے کے لیے جھوٹ مت بولیں اور قانون سازی کریں۔کاش ہماری قوم اِن بڑے لوگوں کے سحر سے نکل آئےاور اپنے ووٹ کا درست استعمال کرے ۔اچھے اور ایماندار لیڈر اور ممبران کو لے کر آنے سے ہی ہماری اور ہمارے ملک پاکستان کی بھلائی اور ترقی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn