Qalamkar Website Header Image

ہاں میں ہزارہ ہوں

hazara-genocide-675x450میں پہلے بھی بارہا برملا اس بات کا اظہار کرچکا ہوں کہ میں سب سے پہلے انسان ہوں پھر کچھ اور ۔ میں انسان نہ ہوتا تو ہزارہ بھی نہ ہوتا ۔اس لئے میری پہلی پہچان انسانیت ہے لیکن مجھے اس بات پر بھی فخر ہے کہ میں ہزارہ ہوں ۔ میں پشتون ، بلوچ ، پنجابی ، سندھی یا سرائیکی ہوتا تو تب بھی میں اپنے پشتون ، بلوچ ، پنجابی ، سندھی یا سرائیکی ” ہونے ” پر فخر کرتا ۔اپنے "ہونے” پر فخر کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دوسروں کے ہونے پر اعتراض کیا جائے ۔ تاریخ ، زبان اور ثقافت انسانی تمدن کا حصہ ہوتے ہیں جن کی حفاظت متمدن اور مہذب قوموں اور معاشروں کی ذمہ داری بنتی ہے ۔ متمدن قومیں تو جانوروں کی معدوم ہوتی ہوئی نسلوں تک کا تحفظ کرتی ہیں ۔ مہذب معاشروں میں جانور اور پرندوں کے شکار پر سزائیں دی جاتی ہیں ۔ ہم تو پھر بھی انسان ہیں جن کی اپنی تاریخ ، زبان اور ثقافت ہے اور مسلسل شکار ہوئے جا رہے ہیں ۔ تو پھر ہم کیوں نہ اپنے ان اثاثوں کی حفاظت کریں اور انہیں نابودی سے بچانے کی کوشش کریں ؟ جو لوگ اپنی تاریخ یاد رکھتے ہیں وہ نہ صرف اپنے ماضی کی غلطیوں کو سدھارنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ جبلی طور پر اپنی جڑ سے پیوستہ رہنے کی بھی سعی کرتے ہیں ، جو لوگ اپنی زبان سے محبت کرتے ہیں وہ انسانی تمدن کے کسی حصے کا تحفظ کر رہے ہوتے ہیں اور جو اپنے کلچر کو پروان چڑھاتے ہیں وہ دراصل انسانی تہذیب ہی کے ایک چھوٹے حصے کو محفوظ رکھنے کا فریضہ انجام دے رہے ہوتے ہیں ۔
نیشنلزم کی کوئی کچھ بھی تعریف کرے میرے خیال میں اپنی تاریخ ، رسوم و رواج ، زبان ، کلچر اور مٹی یا وطن سے اپنائیت ،محبت اور اس کی حفاظت کا نام ہی نیشنلزم ہے ۔
یقینی بات ہے کہ آپ جس ” چیز ” سے محبت کرتے ہیں اسے سنبھال کے رکھتے ہیں اور اس کی صحت و صفائی کا خیال رکھتے ہیں لیکن جو چیز آپ کو اچھی نہیں لگتی اسے آپ اپنے سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اپنی ثقافت ، تاریخ اور رسم و رواج سے محبت کرنا انہیں زندہ رکھنے کا عمل ہوتا ہے ۔
اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ آپ دوسروں کی تاریخ ، ثقافت اور رسم و رواج کو حقیر جانیں ۔ کسی پشتون ، بلوچ ، پنجابی ، سندھی ، سرائیکی ، ایرانی ، عرب ، افریقی ۔۔۔۔۔۔۔ کو اپنی ثقافت اور تاریخ پر فخر کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا مجھے ۔
نیشنلزم دوسروں سے نفرت کرنے کا نام نہیں بلکہ اپنی ثقافت ، زبان ، تاریخ اور وطن کو مشکلات و مصائب اور نابودی سے محفوظ رکھنے کا نام ہے ۔ نیشنلزم کا مقصد یا مطلب اپنی زبان ، ثقافت یا تاریخ کو مقدس جان کر دوسروں پر مسلط کرنا یا اپنے آپ کو دوسروں سے برتر جان کر انہیں حقارت کی نظر سے دیکھنا بھی ہرگز نہیں بلکہ ایسا کوئی بھی ارادی یا غیر ارادی عمل فاشزم اور نسل پرستی کے زمرے میں آتا ہے جو بلاشبہ ایک غیر مہذب اور غیر انسانی عمل ہے ۔
ہزارہ قوم پچھلی کئی دہائیوں سے مختلف قسم کے آلام ومصائب کی شکار ہے ۔ خصوصاَ یہ بات تو سبھی کو معلوم ہے کہ اس عرصے میں ہماری عیدیں تو صرف اور صرف قتل عام کے شکار لوگوں کے گھر فاتحہ پڑھتے اور پرسہ دیتے گزری ہیں ۔ اس دوران ہر گلی محلے سے درجنوں ایسے جوانوں ، بوڑھوں ، بچّوں اور عورتوں کی لاشیں اٹھیں ہیں جو بہیمانہ قتل عام کا شکار ہوئے ۔ ہم سے خوشی منانے کا ہر موقع چھین لیا گیا ۔ موسیقی ، ڈرامے ، کھیل کود اور تعلیم جیسی ” عیاشیاں ” بھی ہم سے ایک ایک کرکے چھین لی گئیں ۔ ہماری ایک بڑی تعداد کو ہجرت پر مجبور کردیا گیا اور ہم جیسے جتنے افتادگان خاک باقی بچے انہیں اونچی دیواروں میں محبوس کر دیا گیا ۔
صورت حال اب بھی زیادہ تبدیل نہیں ہوئی ۔ایسے میں ہمیں خود ہی اپنے لئے ایسے مواقع ڈھونڈھنے پڑیں گے جہاں ہم ایک دوسرے کو حوصلہ دے سکیں ، ایک دوسرے کے گلے لگ کر رو سکیں ، ایک دوسرے کے ساتھ مل کر خوشیاں منا سکیں ، اور ایک دوسرے سے اپنا دکھ درد اور خوشیاں بانٹ سکیں ۔
میرے ہم نفس میرے ہم نشیں . میں آپ سے مخاطب ہوں !
کیا ہمیں خوشیاں منانے اور یک جہتی کا اظہار کرنے کا کوئی حق نہیں ؟ کیا ہم صرف قتل ہونے اور ماتم و سینہ کوبی کرنے کے لئے ہی پیدا ہوئے ہیں ؟ کیا ہزارہ ہونا جرم ہے اور کیا ہمیں ترقی پسند انسان بننے کے لئے ہزارہ ہونے سے انکار کرنا پڑے گا ؟
میں پہلے بھی بارہا برملا اس بات کا اظہار کرچکا ہوں کہ میں سب سے پہلے انسان ہوں پھر کچھ اور ۔ میں انسان نہ ہوتا تو ہزارہ بھی نہ ہوتا ۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں ہزارہ ہوں اور مجھے اپنے ہزارہ ہونے پر ہمیشہ فخر رہے گا ۔
عالمی یوم یک جہتی ہزارہ ہر اس شخص کو مبارک ہو جو انسانی تہذیب و تمدن کی بقاء پر یقین رکھتا ہے ۔

حالیہ بلاگ پوسٹس