میں صبح سے آفس میں کرسی پر براجمان کمپیوٹر پر اپنے کام میں مصروف تھا۔ آج خلاف معمول کام بھی زیادہ تھا۔ میں نے کمپیوٹر پر کام چھوڑ کر ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے کرسی سے کمر لگا لی۔ اِدھر اُدھر دیکھا آفس میں باقی سب بھی اپنے کام میں مصروف تھے۔۔پچھلے کچھ دنوں کی طرح آج بھی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ میں نے ایک نظر اُسے دیکھا۔ وہ ہمیشہ کی طرح کانوں میں ہیڈ فون لگائے کمپیوٹر کی اسکرین پر کچھ دیکھنے میں مصروف تھی ساتھ ہی کچھ لکھ رہی تھی۔ میں کرسی سے اٹھا تو اس نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔
میں خاموشی سے کچن میں آ گیا۔ اپنے لیے چائے بناتے ہوئے میں اس کے بارے میں سوچتا رہا۔
شاید وہ کچھ بات کرنا چاہ رہی تھی۔ میں بھی تو اس سے بات کرنے کے لیے ہی تو بے تاب تھا۔ مگر اپنی خاموشی کی وجہ سے چپ تھا,جو پچھلے کچھ دنوں سے چھائی ہوئی تھی۔ میں نے چائے کا کپ اٹھایا اور واپس کمپیوٹر پر آ کر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا.میرے بیٹھنے پر اس نے پھر ایک نظر مجھے دیکھا میں نے نظر انداز کرتے ہوئے کمپیوٹر اسکرین پر اپنے کیے کام پر نظر دوڑانے لگا۔ چائے کی چسکی لیتے میں سوچنے لگا کہ اتنے عرصہ میں آج تک اس میں اور مجھ میں اتنی بے تابی نہ تھی۔
چائے کے سپ لیتے ہوئے اچانک میرے موبائل کی میسج ٹون بجی۔ سامنے اس کا ہی میسج نوٹیفیکشن تھا۔ میں نے کَن آکھیوں سے دیکھا تو اس نے آنکھوں کے اشارے سے میسج پڑھنے کا کہا۔ میں نے میسج کھولا۔ Please plan a place. . . .any place مجھے واقعی ہی بہت ضروری ملنا ہے آپ سے ۔ جتنی جلدی ممکن ہو سکے۔ میں نے کچھ دیر سوچا اور جی اچھا دیکھتا ہوں کا میسج کیا۔ اس کا "جی ضرور” کا میسج آیا۔ میں چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے سوچنے لگا کہ کچھ دن پہلے ہی میسج پر پہلی بار بات ہوئی تھی۔ تو ہمارے درمیان آفس کی باتوں کے علاوہ کوئی بات کرنے کو نہیں تھی۔ کچھ دنوں ہی میں باتوں کا ایسا سلسلہ بڑھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم ہر بات ایک دوسرے سے کہنے لگے۔
قربتیں بڑھنے لگیں۔ اور اپنی ہر بات میں ایک دوسرے سے مشورہ لینا ہماری عادت بنتی جا رہی تھی۔ میں نے اسے ملنے کا کہا اور اس نے کہا "اچھا وقت نکالوں گی” کہہ کر بات ٹال دی۔ اس کے بعد میں خاموش ہو گیا اس کے اکثر میسج آتے تھے اور میں مصروفیت کا بہانہ بنا کر بات بدل دیتا۔ آج اس کے ملاقات کے میسج میں شدت اور بے چینی دیکھ کر ایک الگ ہی کشمکش کا شکار ہو گیا۔ بے تابی اتنی بڑھ گئی کہ دوسرے دن ہی ملنے کا ارادہ بنا لیا۔ لیک ویو پارک جانے کا ارادہ بنا۔ آفس سے نکلے ٹیکسی لی۔
سارے رستے خاموشی چھائی رہی۔ وہ بھی کچھ گھبرائی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر میں ہم پہنچ گئے۔ پیدل چلنے لگے۔ خاموشی کو توڑتے ہوئے میں نے بات کی شروعات کی۔ تو آج کیسے وقت نکال لیا۔ اس نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ "آپ نے بھی تو اتنے دنوں سے کہا ہوا تھا پر اس کے بعد آپ کی خاموشی مجھے تکلیف سے دوچار کر رہی تھی۔ اس لیے میں نے سوچا کہ اب مل لیا جائے” میں نے ہلکی مسکراہٹ میں سر ہاں میں ہلایا۔ ہم نے آئس کریم لی اور پیدل چلتے ہوئے کھانے لگے۔ چلتے چلتے ہمارے درمیاں آفس اور کام کے متعلق باتوں کا سلسلہ چلتا رہا۔ ہم قریب ہی لکڑی کے ایک چبوترے کے نیچے بینچ پر بیٹھ گئے۔ پہلی ملاقات اور شام کے منظر میں ایک عجیب احساس بن گیا تھا اور اس سے باتوں کا سلسلہ چل نکلا۔
"میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہم یوں مل سکیں گے” وہ مسکرائی اور میرا بایاں ہاتھ تھام لیا "یاد ہے جب پہلی بار میں انٹرویو کے لیے آئی تھی۔ اور پہلی دفعہ آپ ہی کو دیکھا تھا۔ ” "ہاں ۔ اور تم بہت گھبرائی ہوئی تھی۔ "ہاں میں ڈری ہوئی تھی۔ پہلی جاب اور پہلا انٹرویو ۔ وقت کتنی تیزی سے گزر گیا۔ اور آج ہم یہاں ہماری پہلی ملاقات۔ میں مسکرایا اور اس کی طرف دیکھا۔ وہ پھر بولی۔ "زندگی میں کسی انسان کا داخل ہو جانا اور آپ کی زندگی کا حصہ بن جانا کتنا خوشگوار احساس ہے ۔ جب دنیا کی ہر چیز آپ کو اچھی اور اپنی لگتی ہے۔ زندگی ایک سہانے خواب کی طرح گزرتی ہے۔
جس میں کسی کی فکر کیے بغیر ہم آگے بڑھتے ہیں۔” وہ کچھ لمحے خاموش ہی ہوئی میری جانب دیکھا اور پھر بولی "آپ ۔ ۔ آپ کچھ نہیں کہیں گے۔” میں اسے سنتے سنتے سوچ میں پڑ گیا ایک لمحے کے لیے اسے دیکھا اور بولا تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ زندگی واقعی ہی بدل جاتی ہے۔ ایک انسان سامنے آئے اور آنکھوں کے رستے دل میں اتر جائے اور پھر محبت کے راستے کھل جاتے ہیں۔ اور سبھی موسم سہانے لگتے ہیں۔ دل کے آنگن میں پیار کا موسم چھا جاتا ہے رات کا اندھیرا بھی دن لگنے لگتا ہے۔ محبت کی کہانیاں اور قصے سچ لگنے لگتے ہیں۔ بس ڈر لگتا ہے کہ یہ نئی زندگی کوئی چھین نہ لے ہم سے” اس نے میرے بائیں بازوں کو اپنی بانہوں میں لیا کندھے پر سر رکھ لیا اور مسکراتے ہوئے بولی۔ کوئی نہیں چھین سکتا۔ اور نہ ہی ہم دونوں الگ ہو سکتے۔ میں بھی مسکرایا اور اس کا ہاتھ تھام لیا. شام ڈھلتی جا رہی تھی اور ہم ہنستے مسکراتے باتوں میں مگن وقت کی سوئیوں کو بھی سننے سے قاصر تھے۔ اندھیرا چھانے لگا تھا۔
وہ اور قریب ہو گئی اورمضبوطی سے میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا ۔ میرا تو دل جیسے ہاتھ کی ہتھیلی پر دھڑکنے لگا تھا۔ اس کا احساس میرے رگ رگ میں اترنے لگا تھا۔ میرے زندگی کے خوب صورت لمحات میں سے ایک لمحہ یہ بھی تھا جب اس نے میرا ہاتھ تھام کر میرے کندھے پر سر رکھ لیا تھا۔ ہم ساری دنیا سے بے خبر ایک دوسرے کے احساس میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اندھیرا چھا چکا تھا۔ اس نے واپس جانے کا کہا۔ ہم نے ٹیکسی لی اور میں اسے اس کے گھر چھوڑ کر اپنے گھر آگیا۔ وہ دن وہ شام تو جیسے زندگی کا ایسا حصہ بن گئی تھی جیسے میری زندگی کی ساری رونقیں اسی شام میں ہی تھیں وقت نے کروٹ لی میں نے بہت روکا لیکن محبت کو کہاں تک روکتے۔ آخر پھر ایسی ضرب لگی کہ ہماری زندگی تقسیم ہوئی اور احساسات بکھر گئے۔ آج سوچتا ہوں تو ایک بے یقینی سی طاری ہو جاتی ہے کہ وقت کا گذرنا بھی میری محبت کی شدت کو ختم نہ کر سکا۔ میں اس کے ہر احساس کو آج بھی محسوس کر لیتا ہوں۔ آدھی رات کو آنکھوں کے پانی کو پی جانااور جزبات اور احساسات کو دبا لینا محبت ہی تو ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn