Qalamkar Website Header Image

انا کے مقابل | یاسر حمید – قلم کار

ایک سال قبل 20 اکتوبر کو میں نے پنڈی ائیر پورٹ سے کراچی کے لیے ٹکٹ لیا۔ ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا تو انتظار گاہ میں ہینڈ فری لگائے گانے سن کر لطف اندوز ہو رہا تھا۔

کچھ دیر بعد میرے سامنے ایک فیملی آ کر اپنے بیگ رکھنے لگی

تبھی میں نے اسے دیکھا۔ اس ہی کی فیملی کا سامان تھا۔ اس نے مجھ نہیں دیکھا۔ وہ بہت پریشان سی حالت میں تھی۔ خاموش اور ٹوٹی ہوئی۔ تبھی اناؤنسمینٹ ہوئی۔  میں اٹھ کر چل دیا۔ اور ایسے ہی محسوس کیا جیسے اسے دیکھا ہی نہیں۔ اب دماغ میں اس ہی کی تصویر چل رہی تھی میں اس کی پریشانی دیکھ کر بہت تڑپ اٹھا۔ میں نے آج تک اسے پریشان رہنے نہیں دیا تھا۔ اس کی ہر پریشانی کے لیے میں خود سے الجھنے لگتا تھا۔

میں سیٹ پر بیٹھ گیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ اور سر  پیچھے سیٹ سے ٹکا لیا۔

دماغ میں اک فلم کی طرح سب گھومنے لگا۔ وقت نے کتنی پلٹی کھا لی ہے۔

وہ اپنی زندگی کا ہر فیصلہ مجھ سے پوچھ کر کرتی تھی۔ وہ میری ہر بات پر ہنس کر کہتی تھی کہ تم زندگی میں آئے ہو تو سکون سا مل گیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ تم ہی کمی تھے میری۔ کاش تم وقت میں پہلے آ جاتے تو میں اور بھی زندگی کو جی لیتی۔

یہ بھی پڑھئے:  کنچا آنکھیں ( قاضی واجد کی یاد میں)

تبھی مجھے  نسوانی آواز سنائی دی۔ میں نے آنکھیں کھولی تو وہ مجھ سے مخاطب تھی۔ کہ یہ اپنا بیگ سیٹ سے اٹھا لیں۔ میں نے اپنا بیگ اٹھا لیا۔ اس نے اپنی چھوٹی بہن کو ساتھ بیٹھایا۔ میں بہت ہی حیران رہ گیا کہ اس نے مجھے دیکھ کوئی ریکشن کیوں نہیں دیا۔

میں پریشان اور الجھن کا شکار ہو چکا تھا ۔ میں نے کچھ وقت گزرنے کے بعد کن آکھیوں سے دیکھا۔ تو اس کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے۔ میں نے اپنا چہرہ دوسری طرف موڑ لیا اور وقت کو کوسنے لگا۔ وقت نے کس مقام پر لا کھڑا کیا۔ کبھی سوچا نہیں تھا کہ ہم دوبارہ مل سکیں گے۔

آج میں بالکل اکیلا انا کی کنکریوں میں جکڑا ہوا۔ خلاوں کے اس سفر میں وقت کے تھپڑوں میں اپنی سمت بھی بھول گیا ہوں۔

اس سے بڑھ کرکیا اذیت ہو سکتی تھی کہ جسے ساری عمر کے لیے حاصل نہ کر سکا وہ  میرے ہی ساتھ بیٹھی تھی .

عمر بھر کے اس سفر میں ہم دونوں ہی منزل سے لا علم ہی رہے۔

وقت گزرتا گیا میں بے تابی اور اضطرابی میں پوچھنا چاہتا تھا تم میرے اندر کب تک خیمہ زن رہو گی۔ تم اب اتنی اجنبی کیوں ہو۔ اس کے چہرے کی اداسی میری منتظر لگ رہی تھی۔ اس سفر میں بادلوں کے سنگ دل کے اندر کی اداسی جسم میں سرایت کر رہی تھی۔

یہ بھی پڑھئے:  کراچی والوں کی خصوصیت

 ہم کراچی ائیر پورٹ پر لینڈ کر چکے تھے۔ ائیر پورٹ سے نکلتے ہوئے بس ایک بار نظر بھر کر اسں نے دیکھا اور فیملی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ اور میں وہاں کھڑا کتنی دیر وقت کے اس مذاق پہ حیران تھا کہ انا کیسے دو لوگوں کی محبت کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔

 

حالیہ بلاگ پوسٹس

منٹو بنام طارق جمیل

ڈئیر مولانا! امید ہے خیریت سے ہو ں گے۔ کافی دنوں سے سوچ رہا تھا خط لکھوں۔ خط لکھنے کی ایک وجہ تو حوروں کا اصرار تھا۔ کئی بار میرے

مزید پڑھیں »
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

سندھ کی صوفیانہ اساس پر مذہبی جنونیوں کی یلغار

پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو بطور خاص یہ بات سمجھنا ہوگی کہ سندھ میں مذہبی تقدسات کے نام پر فتویٰ فتویٰ کھیلتے مذہبیوں کے سامنے ڈاکٹر عرفانہ ملاح نے

مزید پڑھیں »

کرونا اور جہالت کا مشترکہ حملہ

پاکستان اس وقت تاریخ کے نازک دور سے گذر رہا ہے۔ یہ جملہ ہم کئی دہائیوں سے سنتے آئے تھے لیکن ایسا واقعی ہوتا دیکھ پہلی بار رہے ہیں۔ کرونا

مزید پڑھیں »