اگر سماجی انصاف کی فراہمی کا بغور جائزہ لیا جائے تو اقوام و مذاہب کے تقابلی مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام سماجی انصاف کی فراہمی اور معاشرتی مساوات کا سب سے بڑا علمبردار، قائل اور سچا داعی مذہب ہے۔ جس نے معاشرے میں موجود تمام انسانوں کو ایک جیسے مقام سے نوازا ہے۔ اسلام میں رنگ و نسل، قوم و قبیلہ، ذات پات، دولت و ثروت، اختیار و اقتدار، غریب و امیر، پختون و پنجابی، سندھی، بلوچی، سرائیکی وغیرہ ہونے پر کوئی امتیاز روا نہیں رکھا گیا۔
بلکہ اس کی تقسیم کا واحد قاعدہ و اصول صرف اور صرف ’’تقویٰ و للہیت‘‘ پر قائم ہے۔ اللہ ربّ العزت کا ارشاد ہے ’’ اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔اور تم کو مختلف شاخوں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسروں کو پہچان سکو، اللہ کے نزدیک زیادہ متقی ہی عزت والا ہے‘‘۔ بلا امتیاز عدل و انصاف کا قیام اسلامی معاشرے کا ایک اہم اور بنیادی ستون ہے، بلاشبہ عدل و انصاف ہی کی وجہ سے ہی حق دار حق پا لیتا ہے اور مجرم سزا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’ جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘۔ خاتم انبیاء محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ جو لوگ تم سے پہلے گزرے ہیں انہیں اسی چیز نے ہلاک کیا کہ جب ان میں سے کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے، اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر سزا جاری کر دیتے اور اللہ کی قسم اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کریں گی تو میں اس کا ہاتھ بھی ضرور کاٹوں گا‘‘۔ لیکن اگر ہم آج کے معاشرے میں اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں سماجی انصاف کی صورت حال اسلامی تعلیمات کے بالکل برعکس دکھائی دیتی ہے، کیونکہ ہم اسلام کی روشن تعلیمات کو پس پشت ڈال کر اغیار کی ننگی تہذیب کے دلدادہ ہو چکے ہیں، اسی وجہ سے معاشرے میں محبت و الفت ناپید ہوگئی ہے اور بدامنی و انتشار بڑھ گیا ہے۔
معاشرے میں سماجی انصاف کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے پاکستان سمیت دنیا بھر میں 20 فروری کو سماجی انصاف کا عالمی دن ’’ورلڈ ڈے آف سوشل جسٹس‘‘ منایاجاتا ہے۔ 26 نومبر 2007ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس دن کے منانے کی باضابطہ منظوری دی تھی۔ جب کہ پہلی بار سماجی انصاف کا عالمی دن 20 فروری 2009ء کو منایا گیا تھا۔ اس دن مختلف سرکاری و نیم سرکاری اداروں اور سماجی انصاف کی فراہمی سے متعلق خدمات سرانجام دینے والی این جی اوز کے زیر اہتمام سیمینار، کانفرنسز، مذاکرات، مباحثوں اور دیگر تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جس میں اہم سیاسی شخصیات، صحافتی، مذہبی رہنماء، ماہرین قانون، دانشور اور جوڈیشل افسران اپنے خطابات میں سماجی انصاف کی اہمیت کو اجاگر اور سماجی انصاف کی فراہمی میں بہتری کے لئے تجاویز کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ممبر ممالک میں مختلف معاشروں میں انصاف کے تقاضوں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ شہریوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف آواز بھی اٹھائی جاتی ہے۔ سماجی انصاف کا مطلب ہے کہ لوگوں کے درمیان روزمرہ معاملات زندگی میں اس طرح عدل و مساوات کا فیصلہ ہونا کہ کسی کی بھی حق تلفی نہ ہو۔ بلاشبہ سماجی انصاف کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں کیونکہ جب معاشرے میں لوگوں کو انصاف کے یکساں مواقع نہیں ملتے تواس سے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں جو کہ معاشرے میں غربت، کرپشن اور جرائم میں اضافے کا باعث بنتے ہیں، اور لوگ جنگ و جدل کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں ترقی کرنے والی اقوام نے اپنے شہریوں کو صرف صنعتی ترقی اور آگے بڑھنے کے مواقع ہی نہیں دیے بلکہ اپنے پورے معاشرے پر انصاف کو غالب کر کے انہیں بہت سی فکروں اور پریشانیوں سے آزاد کیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جس کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ یہاں پر سماجی انصاف کی حالت کچھ زیادہ بہتر نہیں، لوگ پینے کے صاف پانی، صحت و تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں جبکہ صرف پچاس فیصد پاکستانیوں کو بنیادی سہولتیں میسر ہیں۔ حکومتی اقدامات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد کار میں اضافے کے باوجود معاشرے میں روز بروز بڑھتے جرائم، چوریاں، ڈکیتیاں، رسہ گیری اور رہزنی کے واقعات لمحہ فکریہ ہیں۔ جب کہ معاشرے کی درست تشکیل و تعمیر کے لیے سماجی انصاف بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
آج بھی ہمارے معاشرے میں امن و امان قائم ہو سکتا ہے الفت و محبت کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم مسلمان صحیح طور پر تعلیمات اسلام کے مطابق زندگی گزارنے والے بن جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات تمام انسانوں کے لیے وسائل کی منصفانہ تقسیم، حق و مساوات اور سماجی انصاف پر مبنی ہے اور انسانوں کے تحفظ و بقا کی ضامن ہے۔ کیونکہ آپ نے سماجی زندگی کا ایسا تصور پیش کیا جس میں افراد مل جل کر رہتے ہوں، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور حسن سلوک سے پیش آتے ہوں.
چونکہ ایک شخص معاشرے سے کٹ کر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اپنے معاملات زندگی بخوبی انجام دے سکتا ہے۔ آج اگر ہمیں اپنے ملک کو امن وسلامتی کا گہوارہ بنانا ہو، یا عدل و انصاف پر مبنی قوانین کو رواج دینا ہو، یا ایک حقیقی فلاحی ریاست کا قیام عمل میں لانا ہو، ایک ایسی فلاحی ریاست جہاں ہر شخص کو شخصی اور مذہبی آزادی میسر ہو، جہاں عورت کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو، جہاں قوانین پر عمل درآمد دشوار نہ ہو، جہاں انسانیت کا تمسخر نہ اڑایا جاتا ہو، جہاں امیر و غریب کو قابلیت کی بنیاد پر ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوں، ان سب کا حصول آج بھی ممکن ہے اگر ہم آپ صلی علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی حقیقی اتباع کرنے والے بن جائیں۔ معاشرے میں بلا امتیاز سماجی انصاف کے لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ ریاست کے قوانین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالے اور افراد کو چاہیے کہ وہ معاشرے میں سماجی انصاف کی قدروں کوپروان چڑھانے کے لئے دوسروں کے لئے بھی وہی پسند کریں جو وہ اپنے لئے پسند کرتے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn