Qalamkar Website Header Image

عورت شناخت چاہتی ہے

تاریخ کا اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو بہت سی چیزیں واضح ہوتی ہیں اور ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ انسان چاہتا کیا ہے؟ اور انسان میں مرد و عورت دونوں کے احساسات ہیں یہ احساسات مختلف بھی ہو سکتے ہیں اور یکساں بھی۔

مجموعی طور پر ہمارے معاشرے کی جو سوچ رہی ہے وہ یہی ہے کہ عورت دولت چاہتی ہے، شہرت چاہتی ہے، عیش و عشرت کا سامان چاہتی ہے۔ لیکن جب ہم تاریخ کا مطالعہ کریں یا عورت کے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ہمیں معلوم پڑے گا کہ عورت نے ان سب چیزوں کو مانگ کر اپنی شناخت مانگی ہے اور اس کے لئے بڑی قیمت بھی ادا کی ہے ۔ تاریخ میں بہت سی عورتیں گزری ہیں جن کی زندگی کے حالات پڑھ کر اور ان کی جدوجہد دیکھ کر ان کی شخصیت اور ان کے احساسات و جذبات کا علم ہوتا ہے ۔

زیب النساء اورنگزیب عالمگیر کی بیٹی بھی ان میں سے ایک ہے۔ جو 15 فروری 1638ء میں پیدا ہوئیں۔ سات سال کی عمر میں قرآن حفظ کیا اس خوشی میں عام تعطیل کی گئی اور جشن منایا گیا۔ اس کے بعد محمد سعید اشرف مازندارانی سے سائنس کی تعلیم حاصل کی محمد سعید مازندارانی فارسی کے ایک عظیم شاعر بھی تھے ۔ زیب النساء نے فلسفہ، ریاضی اور فلکیات کی تعلیم بھی حاصل کی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اردو ، فارسی اور عربی تینوں زبانوں پہ عبور بھی حاصل تھا۔ ان کی لائبریری بہت مشہور تھی بڑے بڑے اسکالرز کو تنخواہ اور مراعات دے کر ان کے علم کو کتابی صورت میں تشکیل دی گئی اس لائبریری میں قانون ، تاریخ و ادب اور الہیات کی کتابیں تھیں۔

شاہ جہاں کے بعد جب اورنگزیب بادشاہ بنا تو اس وقت زیب النساء کی عمر اکیس سال تھی۔ اورنگزیب اپنی بیٹی کی علمی قابلیت سے متاثر تھے اکثر ریاستی امور میں ان سے مشورہ کرتے اور ان کی رائے کو قبول کرتے۔
زیب النساء شعر و ادب کے ساتھ ساتھ موسیقی اور گائیکی میں بھی بے مثال تھیں عورتوں کے بیچ ان کی آواز کے چرچے تھے ان کی شاعری میں خواجہ حافظ شیرازی کا رنگ پایا جاتا ہے۔ اورنگزیب ان سب چیزوں کے سخت مخالف تھے۔
اگرچہ وہ خود بھی مذہبی تھیں لیکن وہ ایک صوفی شاعرہ بھی تھیں اور اپنے والد کی سرد مہری اور عقیدے کے سبب اظہار نہیں کرتی تھیں ایک دن وہ باغ میں گھوم رہی تھیں اور دنیا کے حسن کا تماشا دیکھ رہی تھیں تو یہ اشعار کہے

"چار چیزیں ضروری ہیں میری خوشی کے لیے
پھول و شراب ، بہتی ندی اور چہرہ یار ” یہ تکرار   جاری تھی کہ اچانک ایک درخت کے نیچے ماربل کے چبوترے پر لیٹے اورنگزیب سے سامنا ہوا۔ خوف نے آن گھیرا کہ والد نے یہ الحادی کلمات ضرور سن لیے ہوں گے لیکن جب کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تو پہلے سے تیز آواز میں بولنے لگیں لیکن دوسرے مصرعے کو بدل کر

یہ بھی پڑھئے:  خلافت اسلامیہ کا خاتمہ

” چار چیزیں ضروری ہیں میری خوشی کے لیے
نماز و روزہ اور آنسو و استغفار "

یہ غزل بھی دیکھئے
این دل غمزیدہ را امشب نوای دیگر ست
این سر شوریده در سرہوائے دیگر ست
الحذر ای نوح از طوفان چشم الحذر
کہ این دریائے ما طرز آشنائی دیگر ست
صد مسیحا عاجز آیند از دوائے درد من
زآنکہ بیمار محبت را دوا می دیگر ست
نیست آیین شہادت فانی مطلق شدن
کشتگان عشق را ہر دم بقائے دیگر ست
در سر راه محبت بر امید پیرہن
دیدہ یعقوب را ہر دم ضیائے دیگر ست
اگرچہ دارند عندلیبان ہائے در چمن دہلوی
مخفیا مرغ دلت را ہائے ہائے دیگر ست

اس غمزدہ دل کی آج شب صدا کوئی اور ہے
اس سر دیوانہ کے سر میں موسم ہی کچھ اور ہے
احتیاط اے نوح میری آنکھوں کے طوفان سے احتیاط
کہ میرے اس دریا کا طرز آشنائی کچھ اور ہے
سینکڑوں مسیحا میرے علاج سے عاجز آ گئے ہیں
میں محبت کا وہ بیمار ہوں کہ جس کی دوا کچھ اور ہے
شہادت کے دستور میں نہیں کہ مکمل مر جائے
عشق کے مقتولین کا بقا ہر وقت کچھ اور ہے
محبت کی راہ پر پیراہن کی امید کے سہارے
یعقوب کے بینائی کی ہر دم روشنی کچھ اور ہے
اگرچہ دہلی کے چمن میں بلبل بہت ہیں
مخفی کے دل کا بلبل ہائے ہائے کوئی اور ہے

ایک اور غزل کے چند اشعار۔

میں مسلم نہیں ایک بت پرست ہوں
میں اپنی محبت کے تصویر کے آگے جھکتی ہوں
اور اس کو پوجتی ہوں
میں برہمن نہیں جو دھاگہ باندهوں
میں نے ہر چیز گردن سے اتار لی
اسے زلف یار میں باندھ لیا

اس زمانے میں ایک ایرانی شہزادہ تھا، اس نے ایک مصرعہ کہا تھا۔
"در ابلق کسے کم دیدہ موجود”
(در ابلق کس نے دیکھا ہے، بہت کم موجود ہوتا ہے)

در ابلق ایک سفید اور چمک دار موتی کہ جس میں ایک باریک سی سیاہ لکیر ہوتی ہے اور یہ بہت نایاب ہے پہلا مصرعہ تو اس نے بنا لیا لیکن دوسرا مصرعہ اس سے نہیں بن رہا تھا، چنانچہ اس نے کہا جو بندہ دوسرا مصرعہ بنائے گا میں اس کو بڑا انعام دوں گا یہ بات چلتے چلتے ایران سے ہندوستان تک پہنچی، یہاں کے شعراء نے بھی کافی طبع آزمائی کی لیکن کچھ نہ بنا، مخفی نے بھی اس مصرعہ کی شہرت سن لی تھی

ایک دن ہوا یوں کہ جب اپنی آنکھوں میں سرمہ ڈالا ، سرمہ ڈالنے سے کئی مرتبہ آنکھوں میں پانی آ جاتا ہے سرمہ ڈالنے کے بعد جو اس نے آئینہ دیکھا تو وہ آنکھ سے نکلا ہوا پانی آنسو کی شکل میں پلکوں کے اوپر تھا اور اس میں سرمے کی وجہ سے ہلکی سی لائن تھی، اس نے دیکھتے ہی کہا کہ یہ تو درابلق کی طرح ہے، چنانچہ اس نے وہیں دوسرا مصرعہ کہہ کر شعر مکمل کر دیا کہ

یہ بھی پڑھئے:  کربِ قندیل اور میں

در ابلق کسے کم دیدہ موجود
مگر اشک بتاں سرمہ آلود
” در ابلق کس نے دیکھا ہے، بہت کم موجود ہوتا ہے
مگر محبوب کے سرمہ آلود آنسو کا قطرہ "

یہ بات اس شہزادے تک پہنچی تو کہا: شاعر کو میرے پاس بھیجو، میں اس کو بڑا انعام دینا چاہتا ہوں، جب یہ بات اورنگزیب عالمگیر تک پہنچی تو بیٹی سے کہا: بیٹی! میں تجھے کہتا نہیں تھا کہ تو شعر نہ کہا کر، کسی مصیبت میں ڈالے گی، اب دیکھو شہزادہ کہتا ہے کہ جس شاعر نے یہ کہا ہے، وہ میرے پاس آئے، میں اسے انعام دینا چاہتا ہوں

زیب النساء مخفی کہنے لگی: ابا جان! آپ پریشان نہ ہوں، میرے دو شعر لکھ کر اس کے پاس بھیج دیں، وہ بات کو سمجھ جائے گا، چنانچہ اس نے یہ شعر بھیجے

بلبل از گل بگذرد چون در چمن بیند مرا
بت پرستی کے کند گر برہمن بیند مرا
در سخن مخفی شدم مانندِ بو در برگِ گل
ہر کہ خواہد دیدنم گو در سخن بیند مرا

ترجمہ: بلبل اگر مجھے چمن میں دیکھ لے تو گل کو چھوڑ دے برہمن کب بت پرستی کرے اگر وہ مجھے دیکھ لے جس طرح پھول کی پتی میں بو مخفی ہے، اسی طرح میں بھی اپنے سخن میں مخفی ہو گئی ہوں جو بھی میرا دیدار کرنا چاہتا ہے، اسے کہو کہ وہ مجھے سخن میں دیکھے

شہزاده سمجھ گیا یہ کوئی عورت شاعرہ ہیں۔

اور باوثوق تاریخی آثار سے ثابت ہوا ہے کہ یہی چیزیں زیب النساء کی زندگی کے بیس سال زنداں میں گزارنے کا سبب بنیں۔ والد نے ان کو زنداں میں قید کر دیا اور بیس سال تاریک زنداں میں گزارنے کے بعد اس جہاں سے روٹھ کر چلی گئی۔ زنداں میں اپنا درد اشعار میں بیان کرتی رہیں اور اپنا تخلص "مخفی” رکھا ان کے وفات کے بعد اس کو دیوان میں ترتیب دیا گیا جس کا نام "دیوان مخفی” رکھا گیا ان میں چار سو اکیس غزل ہیں اور کئی رباعیات ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زیب النساء کو کس چیز کی کمی تھی؟ خواب و خیال سے بڑھ کر دولت اور آسائش کا سامان میسر تھا لیکن کمی تھی تو ان کی شخصی و فکری آزادی کی۔

 

حالیہ بلاگ پوسٹس