پاکستان میں 2025 تک پانی کا خاتمہ ہوجائے گا یا یہ اگلے پانچ سے سات سال میں غیری معمولی تناسب سے خشک سالی کی حدوں کو چھونے لگے گا۔
واقعی؟ لیکن کیسے ؟
یو ایس ایڈ کی 2017 کی فیکٹس شیٹ کے مطابق فی الحال پاکستان ایک اضافی غذائی پیداوار والا ملک ہے۔ لیکن اضافی غذائی پیدوار سالانہ 104 ملین ایکڑ فٹ پانی استعمال کر جاتی ہے۔ جان برسکو نے اپنی کتاب "پاکستان کی آبی معاشیات خشک سالی کی جانب” Pakistan’s Water Economy Running Dry میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان کا نظام آبپاشی دنیا میں سب سے زیادہ پانی ضائع کرنے والے نظاموں میں سے ایک ہے۔ بھارتی پنجاب اتنے ہی پانی سے پاکستان کی نسبت 30 فیصد اور کیلیفورنیا 50 فیصد زائد پیداوار حاصل کرتا ہے۔ ساندرا پوسٹل نے 1992 میں اپنی کتاب Last Oasis میں اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ دستیاب ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے آبپاشی کی کارکردگی کو پچاس فیصد تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ تاہم 1990 کی دہائی سے کافی بہتری لائی گئی ہے اور آج کی پانی بچانے کی ٹیکنالوجی ہمارے کسانوں کو اس قابل بنا سکتی ہے کہ وہ 50 ملین ایکڑ فٹ پانی سے کم استعمال کر کے بھی اضافی خوراک پیدا کر سکیں۔
بین الاقوامی معیار کے مطابق ایک دن میں 35 گیلن فی کس پانی ایک صحت مند زندگی کے لیے کافی ہے۔ اگر ہم ملک کے ہر شہری کو یہ مقدار پہنچانا چاہیں تو ہمیں کل 12 ملین ایکڑ فٹ پانی کی ضرورت ہے۔ اگر ہم پانی کی فراہمی کے سسٹم میں عام طور پر پانی کی ضائع ہونے والی مقدار کو 30 فیصد بھی مان لیں تو 22 کروڑ عوام کی گھریلو ضروریات کے لیے ہمیں 17 ملین ایکڑ فٹ سے زیادہ پانی درکار نہیں ہوگا۔
پاکستان کا پانی کا صنعتی استعمال 10 ملین ایکڑ فٹ سے کم ہے۔ چنانچہ گھریلو، صنعتی اور غذائی پیداوار کے لیے ہماری پانی کی اصل ضرورت 77 ملین ایکڑ فٹ سے بھی کم ہے۔ جبکہ ملک میں بہنے والے دریا ہی اوسطاََ 145 ملین ایکڑ فٹ پانی سالانہ فراہم کرتے ہیں۔
ہم ہرگز پانی کی کمی کا شکار نہیں ہیں۔
عام طور پر یہ سوچا جاتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہمارے پانی کے قدرتی ذخیروں میں کمی کا باعث بنیں گی لیکن انگلینڈ میں یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیا (The University of East Anglia)کے موسمیاتی تحقیقی یونٹ کے مطابق ملک میں پچھلے 115 سال میں بارش کے نظام میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ دراصل یہ ایک زور پکڑتا رجحان ہے۔پانی کا وسیلہ کثرت سے دستیاب ہے۔ مسئلہ ہمارے استعمال کرنے کے طریقوں میں ہے۔
اگر ہم آب پاشی کے موثر نظام کو اپنا لیں توآب پاشی کے نظام میں جانے والے 104 ملین ایکڑ فٹ پانی میں سے 54 ملین ایکڑ فٹ پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔شہری اور صنعتی سیکٹرز کو 27 ملین ایکڑ فٹ کی پانی کی ضرورت کو باوجود اہلیت رکھنے کے صحیح طریقے سے سیراب نہیں کیا جا پا رہا۔ زیادہ تر شہروں میں گھریلو اور صنعتی ضروریات کو آب اندوخت نظام میں بہتری لا کر، آب اندوخت اور ندی نالوں کے پانی کو آلودہ ہونے سے بچا کر ، بارش کے پانی کو بہتر انداز سے ضائع ہونے سے بچا کر اور سیوریج کو بہتر انداز سے ٹھکانے لگا کر پورا کیا جاسکتا ہے۔
شہری و صنعتی آب پاشی سیکٹر میں سرمایہ کاری ان علاقوں میں گندے پانی کے بیماریاں پیدا کرنے والے تالابوں کو ختم کر کے نا صرف پانی بلکہ درختوں کی کٹائی اور پانی کے کھارے پن کے مسائل کے حل کی بھی ضامن ہوگی۔قدرتی پانی کی گزر گاہیں جو کہ اب گندے پانی کے نالوں میں تبدیل ہو گئی ہیں دیکھتے ہی دیکھتے ماضی کی طرح آبی ذخائر میں تبدیل ہو جائیں گی اور بہت سے ماحولیاتی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔
پھر یہ سب ڈراؤنی خبریں کیوں پھیلائی جا رہی ہیں؟
اس طرح کے رویے سے فائدہ اٹھانے والا پہلا طبقہ وہ سائنسی تنظیمیں ہیں جو فنڈز دینے والی ایجنسیز سے اپنے ان "اشد ضروری ” سٹڈیز پر ریسرچ فنڈ حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں ، جو اس ‘متوقع بدنصیبی ‘ سے محفوظ رکھ سکیں۔ جب فنڈز مل جائیں گے تو وہ اپنی موجودگی کا جواز دے سکیں گی اور ان کے نام نہاد سکالرز اپنے سی وی میں چند مزید مقالات شامل کر سکیں گے۔ اس سے بہرہ مند ہونے والا دوسرا طبقہ فنڈنگ ایجنسیز کو عطیہ دینے والے مخیر ہیں۔ اگر ‘متوقع بدنصیبی’ کسی میگا پراجیکٹ میں تبدیل ہوجائے تو چندہ دینے والے مخیر حضرات کو بڑے کاروباری مواقع کی صورت میں صلہ دیا جاتا ہے جو کہ بڑے تعمیراتی معاہدوں، مہنگی مشینری اور بڑی تعداد میں سامان کی سپلائی کی صورت میں ہوتے ہیں۔ جتنا بڑا خطرہ ہو گا اتنا ہی بڑا پراجیکٹ اور اتنا ہی اچھا منافع ۔تاہم یہ خطرات سرمایہ کاری کی ترجیحات میں تبدیلی پیدا کردیتے ہیں۔
ادھار کی رقم سے بڑے انفراسٹرکچرز پر سرمایہ کاری مشکل مگر نام نہاد قابل یقین حل رکھنے والے پراجیکٹس عام طور پر پریشانی اور گھبراہٹ کی وجہ سے ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر آب پاشی کے نظام میں ضائع ہونے والے 54 ملین ایکڑ فٹ پانی کی بجائے 20 ملین ایکڑ فٹ پانی کا رخ موڑ کر اسے ڈیم میں جمع کرنے پر توجہ مرکوز کرنا ہے جو اسے سندھ ڈیلٹا میں لے جائے جبکہ دوسری طرف دریائی ڈیلٹا کے کٹاؤاور ڈیموں میں مٹی بھر جانے (جیسا کہ تربیلا اور منگلہ کے کیس میں ہوا) سے مکمل چشم پوشی کر کے اور آب پاشی کے نظام میں پانی ضائع ہونے، درختوں کے کٹاؤ اور پانی کے کھارے پن جیسے مسائل پر اشتعال دلا کر ڈیمز جیسے پراجیکٹس پر بلین ڈالرز خرچ کردینا ہے۔
آب اندوخت کا بہتر نظام، آبپاشی کے نظام میں بہتری لانا اور آلودگی پر نظر رکھنے کے لیے بہت بڑی رقوم اور مہنگے ٹھیکوں کی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ دیرپا اور پائیدار ہوتے ہیں۔ بیرونی امداد اور غلط مشورے کسی بھی طرح ایک آپشن نہیں رہے۔ جس دلدل میں ہم ہیں اس سے نکلنے کے لیے ہمیں اپنے نظام کو سمجھنا، اپنے آپ پر اور اپنی طاقت پر یقین رکھنا ہوگا۔ یہ دہشت ناک خبریں پھیلانے والے سرمایہ کاری موڈیولز کے ہاتھوں بے وقوف بننے سے باز رہنے اور دائمی استحکام والے حل کو قبول کرنے کا وقت ہے۔
مصنف حسن عباس پانی کے ذرائع اور ہائیڈرولوجی کے ماہر ہیں۔ ان کا یہ مضمون ڈان میں 28 جون کو شائع ہوا جس کا ترجمہ قلم کار پر شائع کیا جارہا ہے تاکہ پانی کے مسائل پر روشنی ڈالی جا سکے۔
پیشے کے لحاظ سے اکاؤنٹنٹ ہیں۔ لکھنے کا شوق ہے ۔ دوستی کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ سوشل ویب سائٹس سے کافی اچھے دوست بنائے جنہیں اپنی زندگی کا سرمایہ کہتے ہیں۔ قلم کار ان کا خواب ہے اور اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے انہوں نےبہت محنت کی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn