Qalamkar Website Header Image

بیوگی کا دکھ۔۔۔

sakhawat hussainوہ مسلسل پچھلے دو گھنٹوں سے رو رہی تھی۔آج صبح ہی اس کے شوہر کاایک بلڈنگ کی تعمیر کے دوران کرنٹ لگنے کی وجہ سے انتقال ہو گیا تھا۔ٹھیکدار نے اتنی رعایت کردی تھی کہ جنازے کے اخراجات خود اٹھائے تھے۔روتے روتے نسیمہ کی آنکھوں کے آنسو بھی ساتھ چھوڑ گئے تھے۔بھری جوانی۔۔۔تین بچے ۔۔۔زندگی گزر رہی تھی تو صرف شوہر کے سہارے۔
"احمد! سن،جب بھی کروں گی تیرے سے وہ کیا بولتے ہیں نا،پیار والی شادی کروں گی۔لو میرج۔”
ماں باپ سب سے منہ موڑ کر دونوں شہر میں آگئے تھے اور اپنی الگ دنیا بسا لی تھی۔جس میں اب ان کے تین شرارتی اور خوبصورت بچے بھی ان کے ہمنوا تھے۔سب ہی نسیمہ پر گئے تھے۔چٹا رنگ،خوبصورت نقش اور اوپر سے محبت سے وجود معطر۔ مزید نکھر گئی تھی وہ بھی اور بچے بھی۔دس روز گزر گئے تھے احمد کی وفات کو۔اب تو آنسو بھی خشک ہوگئے تھے۔پہلے کچھ دن تو محلے سے کھانا آتا رہا۔پھر دھیرے دھیرےلوگ بھی اکتا گئے۔اور اب صرف مشکل وقت کے لئے جوڑے ہوئےچند پیسے تھے۔
پہلی با ر آج وہ باہر نکلی تو اس نے ہر مرد کی آنکھ میں ہوس دیکھی۔دودھ والے سے لے کرسبزی والا کجا دوکاندارسب ہی جیسے لٹو ہو رہے تھے اس پر۔
"نسیمہ جی اس دوکان کو اپنی دوکان سمجھیں۔”
"بھائی جی سبزی کے کتنے پیسے ہوئے”؟
"یہ کیا تکلف برت رہی ہیں؟اب آپ سے ہم پیسے لیں گے؟یہ آپ کی ہی دوکا ن ہے”۔
ہر جگہ سے ایسے جملے سننے کو ملتےاور وہکبھی پیسے دیتی کبھی مروت کے مارے منہ چھپا کر گھر آجاتی۔عدت ختم ہونے میں کچھ دن تھے اور پیسے ختم ہو چکے تھے۔اب تو دوکانداروں نے بھی آنکھیں پھیرنا شروع کر دی تھیں۔
آج جب سبزی والے کے پاس پہنچی تو اس نے اپنی بیوی کی برائیاں شروع کر دیں۔دودھ والے کا بھی یہی حال تھا۔ایسا لگ رہا تھا کوئی اپنی ذاتی زندگی سے خوش نہیں۔اور ڈرتے ڈرتے اس نے جنرل سٹور والے سے آخر مزید ادھار مانگ لیا۔
نسیمہ جی ۔پیلے دانتوں میں پان دبائے اس نے ایک دم اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔وہ سٹپٹائی، اور بس اوپر دیکھا اور مالک سے گویا ہوئی تیری دنیا اور تیرے بندے۔
اس کے بعد اکثر یہ ہونے لگا۔
دوکاندار موقع دیکھ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیتے۔ایک دن اس نے ہمت کرتے ہوئے سبزی والے کو چانٹا جڑ دیا۔بس پھر کیا تھا پورا گینگ اس کے خلاف ہوگیا۔کیا کیا سننے میں نہیں ملا اسے؟فاحشہ۔۔۔وحشیہ۔۔۔اور الٹا محلے کی عورتیں بھی اس کے خلاف ہوگئیں۔محلے سے نکلنا دوبھر ہوگیا تھا اس کا۔
گھر میں فا قے چل رہے تھے۔معصوم بچے بھوک سے تڑپ رہے تھے۔ماں باپ نے بھی آنکھیں پھیر لی تھیں۔ہمارے یہاں غیرت کا مسئلہ بھی تو سب سے بڑا مسئلہ ہے۔وہ ایم این اے کے پاس گئی۔سب سے مدد مانگی۔مگر ہر طرف اسے حرص سے بھری آنکھیں ہی ملیں۔اور کوئی شادی کا بھی خواہاں نہیں تھا۔بس ہر کسی کو وہ کسی کھلونے کی طرح درکا رتھی۔ایک سے شادی کی بات کی تو اس نے عجیب نطروں سے دیکھا اور کہا۔”بیوی مار دے گی، بچے نہیں چھوڑیں گے اگر دوسری شادی کی”۔
اور اس دن اس نے لوگوں کا ذہن پڑھ لیا تھا۔اور آج فاقے کا تیسرا دن تھا۔ہر سو ہاتھ پھیلائے۔لیکن کہیں سے کچھ نہیں ملا۔پڑھی لکھی تھی نہیں کہ جاب کر لیتی۔داتا دربار سے کھا نا ملا تو اسے ایسے لگا جیسے روح زندہ ہوگئی ہو۔بچے پھر جی اٹھے اور اس دن کے بعد معصوم بچوں نے دوبارہ نہ ہی اسکول دیکھا اورنہ کوئی خواہش کی۔کسی نے بوٹ پالش کئے ۔ایک ورکشاپ پر چلا گیااور بیٹی ماں کے ساتھ لوگوں کے گھروں میں صفائی کرنے لگی۔
جبران کی آنکھوں میں صرف نمی تھی۔وہ مجھے اپنی ماں کی داستان سنا رہا تھا۔اس کی ماں دس برس پہلے جب وہ پچیس برس کا تھاانتقال کر گئی تھی۔اور چھوٹا بھائی بھی ڈینگی کی وجہ سے جان کی بازی ہار گیا تھا۔بہن کی شادی کردی تھی اور اس وقت وہ اپنی دنیا بنانے میں مصروف تھا۔اس نے میٹرو کی بات کرتے ہوئے کہا،ّّسخاوت صاحب! ایک میٹرو میں لاکھوں غریب پل جاتے ہیں،ایک اورنج ٹرین کا پیسہ عوام پر لگتا تو ہزاروں بیوہ عورتوں کو چھت مل جاتی،میری ماں ڈٹی رہی لیکن  عورتیں روز بیوگی کے دکھ کے ساتھ خاموش ظلم کا شکا ر ہوجاتی ہیں۔کتنے غریب، غر بت سے تنگ آکر کسی گاڑی،کسی ٹرین کے نیچے آکر خود کشی کر لیتے ہیں” وہ ہنسا۔”کیا ہم پاکستانی نہیں تھے؟کیا تعلیم پرہمارا حق نہیں تھا؟کیا حکومت کی ذمہ داری نہیں تھی کہ میری ماں کو تحفظ فراہم کرتی؟اگر دواؤں کے پیسے ہوتے تو میرا بھائی ایسی موت نہ مرتا۔ہم داتا دربا ر کا لنگر کھا کر ہی بڑے ہوئے ہیں۔حکومت نے تو عوام کو نہ دیکھنے کی قسم کھا ئی ہے”
"آپ لوگ ہی بتائیں ہم کیا کریں ان سڑکوں کا؟کیا کرے کوئی بیوہ عورت جسے معاشرے میں ہر کوئی کھلونا سمجھتا ہو جسے ہر کوئی اپنی ذاتی ملکیت سمجھتا ہو؟ کیا کریں اس کے بچے ؟کل وہ عورت دو بوری گندم کے لئے کسی کرپٹ سیاستدان کو ووٹ نہ دے تو کیا کرے
کل اس کے بچے مجرم نہ بنیں تو کیا بنیں؟ہے کوئی پلان ان کے لیے بھی آپ لوگوں کے پاس ؟ہے کوئی پلان ملک کے ستر فی صد انتہائی غریبوں کے لئے آپ کے پاس؟”
"یا وہ کسی میٹرو کے نیچے سسک سسک کر زندگی گزاریں یا جان دے دیں”؟

حالیہ بلاگ پوسٹس

کنفیشن باکس

سرد ہوا جیسے رگوں میں خون جمانے پر تلی تھی ۔ رات بھر پہاڑوں پہ برف باری کے بعد اب وادی میں یخ بستہ ہوائیں تھیں ۔ خزاں گزیدہ درختوں

مزید پڑھیں »

کتبہ (افسانہ) غلام عباس

شہر سے کوئی ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر پُر فضا باغوں اور پھلواریوں میں گھر ی ہوئی قریب قریب ایک ہی وضع کی بنی ہوئی عمارتوں کا ایک سلسلہ

مزید پڑھیں »

داعی (افسانچہ) – ابوعلیحہ

مولانا کمال کے آدمی تھے۔ ستر برس کے پیٹے میں بھی ان کے ضخیم بدن کا ہر ایک رونگٹا، ان کی مطمئن صحت کی چغلی کھاتا تھا۔ ملیح چہرے پر

مزید پڑھیں »