Qalamkar Website Header Image

آخر کیوں؟

Rauf Klasarشاید محبتیں بےبس کر دیتی ہیں
میں نے ہالی ووڈ کی شہرہ آفاق فلم کنگ کانگ کا نام بہت پہلے سنا تھا۔ دیکھنے کا اتفاق برسوں بعد گزشتہ اتوار کو ہوا اور وہ بھی اس فلم کا بالکل آخری سین جب میرے بیٹے نے مجھے ڈش کا چینل بدلنے کی اجازت نہیں دی اور مجھے اس کی خوشی کی خاطر اس کے ساتھ اس فلم کا اینڈ دیکھنا پڑا ۔ اس لیے مجھے کوئی پتہ نہیں ہے کہ یہ فلم کہاں سے شروع ہوئی اور اس کی پوری کہانی کیا تھی۔
اس سین میں کنگ کانگ گوریلا امریکی شہر میں پہنچ چکا ہے اور جنگی طیارے سب سے اونچی عمارت پر بیٹھے کنگ کانگ کو مارنے کے لیے حملہ آور ہو رہے ہیں۔ وہ دو تین جہازوں کو ہاتھ میں پکڑ کر گھما کر پھنک چکا ہے اور لگ رہا ہے کہ اسے یہ طیارے بھی شاید نہ مار سکیں ۔ اس کنگ کانگ کی دوست لڑکی اسے بچانے کے لیے عمارت پر چڑھی ہوئی ہے۔ ایک دفعہ جب طیارے کنگ کانگ کو مارنے کے لیے سیدھے اس کی طرف آتے ہیں، تو وہ لڑکی اس کے سامنے آجاتی ہے جسے دیکھ کر جنگی جہاز کا پائلٹ گولیاں نہیں چلاتا۔ وہ لڑکی کنگ کانگ کو بچانا چاہتی ہے تو کنگ کانگ اس لڑکی کو۔
آخرکار اس خوبصورت لڑکی کو بچاتے ہوئے طیاروں کی گنیں اس کنگ کانگ کو بھون کر رکھ دیتی ہیں اور وہ نیچے آگرتا ہے۔ گولیاں کھانے کے بعد نیچے گرنے سے پہلے کے مناظر میں جو کچھ کنگ کانگ اور اس لڑکی کی آنکھوں میں دیکھا جا سکتا ہے اسے شاید پردہ سکرین پر ہی دکھایا جا سکتا ہے اسے لفظوں کی مالا نہیں پہنائی جا سکتی۔ جب اخباری نمانئدے اس کنگ کانگ کی تصویریں لے رہے ہوتے ہیں اور اس مجمع میں کوئی پوچھتا ہے کہ یہ کیسے مرا، تو جواب ملتا ہے کہ اسے طیاروں کی گولیوں نے مارا ہے، تو ایک شخص مجمع کو چیر کر اگے بڑھتا ہے اور کہتا ہے کہ نہیں This is the beauty that killed the beast اس کا مطلب تھا کہ کنگ کانگ کو گولیاں نہیں مار سکتی تھیں وہ ایک خوبصورت لڑکی کی محبت میں مارا گیا۔
اس آخری سین کا آخری ڈایئلاگ کچھ ایسا تھا کہ بہت سی یادیں حملہ آور ہوئیں۔۔اور میں ان کے ساتھ بہتا ہی چلا گیا۔
جب پہلی دفعہ کنگ کانگ پاکستانی سینماؤں میں نمائش کے لیے پیش ہوئی تھی تو اس وقت ہم یار دوست گاؤں کی ایک دوکان پر رات گئے چوری چھپے پیسے اکھٹے کر کے سلطان راہی اور مصطفے قریشی کی فلمیں دیکھ کر اپنی ٹھرک پوری کر لیا کرتے تھے۔ کچھ عرصے بعد پتہ چلا کہ بھارتی فلیمں بھی لیہ شہر کی دوکان سے وی سی آر کے ساتھ ساتھ کرائے پر مل سکتی ہیں تو کچھ میعار بہتر ہوا اور ہم لوگ امیتابھ بچن اور متھن چکرورتی کی فلموں کے دیوانے ہونے لگے۔ نصیرالدین شاہ کی باری بہت دیر بعد آئی اور پھر مجھے راج ببر اچھا لگنے لگا ۔ امریش پوری، شکتی کپور کا آج تک دیوانہ ہوں۔ بھارتی پنجاب کے شہر موہالی پچھلے سال پاکستان اور انڈیا کا ورلڈکپ سیمی فائنل دیکھنے گیا تو سب کچھ چھوڑ کر شکتی کپور کو ڈھونڈ کر اس کے ساتھ تصویر بنوائی اور آٹو گراف بھی لیا۔ یہ میری زندگی کا پہلا آٹو گراف تھا جو میں نے کسی سے لیا تھا۔ یہ کہانی پھر سہی۔
تاہم پھر بھی ہم گاؤں کے لڑکے اس قابل نہ ہو سکے کہ انگریزی فلم کا شوق پالتے۔ ان دنوں نیا نیا وی سی آر کا جنون جنرل ضیاء کے گھٹن زدہ معاشرے میں پروان چڑھ رہا تھا۔ کرائے پر وی سی آر لانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا ۔ بستی کا ایک دوکاندار دوست جسے ہم سب پیار سے ٹوٹی کہتے تھے، اپنے سارے ہفتے کی کمائی سے جا کر ایک و ی سی آر کرائے پر لاتا اور چند فلمیں بھی ساتھ لاتا اور پھر سب سے کرائے کے پیسے اکھٹے کرتا اور اپنا منافع سنبھال لیتا۔ سب کے لیے ضروری تھا کہ اس راز کو راز رکھا جائے تاکہ نہ تو پولیس کا چھاپہ پڑے اور نہ ہی گھر والوں کو خبر ہو کہ آج رات ہم سب مل کر کیا گل کھلانے والے تھے۔ سب لڑکے اس راز کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھ کر راز رکھتے کہ کسی کو بتا دیا تو سیدھے جہنم میں جائیں گے۔
گاؤں کی ماؤں کو فکر تھی کہ بچے خراب ہو جائیں گے۔ میرے اوپر اماں ضرورت سے زیادہ سختی کی قائل تھی کیونکہ مجھ سے بڑا بھائی سگریٹ پینے لگ گیا تھا اور گاؤں میں حقہ پینا تو شاید معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن سگریٹ اور وہ بھی ابھی میٹرک میں پڑھنے والے بچے کا ایک قیامت کی نشانی سے کم نہیں تھا۔ ۔۔ یوں اماں کو اس بھائی کے بگڑنے کے بعد اب میری فکر پڑ گئی تھی۔
یوں اماں میرے پیچھے ایک سخت گٰیر دادا بن کر لگ گئی تھیں۔ میری ہر سرگرمی پر آنکھ رکھی جاتی تھی۔ میرے استادوں سے میرے بارے میں رپورٹ منگوانے سے لے کے میرے دوستوں کے بارے میں جاننا تک ان کے روز مرہ زندگی میں شامل تھا۔ اماں کتاب ہاتھ میں لے کر کہتی کہ چل بیٹا اب مجھے اپنا ہوم ورک سنا اور میں سنانا شروع کرتا اور جہاں اٹک جاتا تو کہتی دیکھا نہ، تم نے سبق صیح یاد نہیں کیا اور میں بڑا متاثر ہوتا کہ اماں تو بہت پڑھی لکھی ہیں۔ برسوں بعد پتہ چلا کہ اماں تو دو تین جماعتوں سے زیادہ پڑھی نہیں تھیں۔ وہ محض تکے کی بنیاد پر کتاب ہاتھ میں لے کر بیٹھتی اور جہاں اٹکتا تو اس کا مطلب تھا کہ مجھے سبق نہیں آتا تھا۔ یوں انہوں نے برسوں تک یہی رعب رکھا کہ انہیں سب پتہ تھا۔۔
اس لیے میرے اوپر وی سی آر دیکھنا حرام تھا ۔ گاؤں کے سب لڑکے رات کو فلمٰیں دیکھتے اور ان فلموں کے گانوں اور ڈایئلاگ کی آوازیں میرے کانوں میں گاؤں پر پھیلی چاندنی میں پہنچ رہی ہوتیں کیونکہ جس دوکان پر یہ سب کچھ ہو رہا ہوتا تھا وہ میرے گھر کے قریب تھی۔ میں پوری رات جاگ کر گزارتا لیکن مجال ہے کہ اماں اجازت دیتی ہو کہ میں بھی جاکر دیکھ لوں ۔ اگلے دن گاؤں کے لڑکوں سے فلم کی کہانیاں سن کر جی خوش کر لیتا۔
ایک دن شام کو پتہ چلا کہ آج پھر ٹوٹی وی سی آر لے آیا ہے۔ دل تڑپ اٹھا ۔ میں نے کہا آج رات تو کچھ ہو جائے، ہر صورت فلم دیکھنی ہے۔ یہ سختی صرف میرے اوپر ہی کیوں۔ یہ بغاوت اس لیے بھی زیادہ محسوس ہو رہی تھی کیونکہ مجھ سے بڑے بھائی کو ہر قسمی کام کرنے کی اجازت تھی۔ وہ میرے سامنے وی سی آر پر فلیمں دیکھنے کے لیے اماں سے پیسے لے کر جاتا تھا۔ میں نے کہا یہ کیسا ظلم ہے۔ ان دنوں میرے پیارے دوست سہیل وڑائچ جیو ٹی وی پر ایک دن جیو کے ساتھ نہیں کرتے تھے لہذا ابھی تک وہ ان کا مشہور زمانہ ڈایئلاگ گاؤں تک نہیں پہنچا تھا ورنہ میں اماں سے ضرور پوچھتا کہ اماں کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔
اس شام میں اپنی بڑی بہن کے پاس گیا جو گاؤں کے سکول میں پڑھاتی تھی۔ بابا کی وفات کے بعد اس کی تنخواہ پر اماں کا انحصار تھا لہذا کبھی کبھار وہ ہم چھوٹے بھائیوں کو بھی کچھ روپے دے دیتی تھی۔ اس رات میں بہن کے پاس گیا اور کہا کہ مجھے دس روپے دو اور میں نے فلم دیکھنی ہے اور سنو اماں کو نہ بتانا۔ اس نے پوچھا کہ کیسے جاؤ گے۔ میں نے کہا جب اماں سو جائیں گی تو میں گھر کی حویلی سے اٹھ کر چلا جاؤں گا۔ بس تم کسی کو نہ بتانا۔ اس نے مجھے دس روپے دیے اور ساتھ میں کہا اگر تم پکڑے گئے تو زہن میں رکھنا میں نے تمیں پیسے نہیں دیے اور میں بالکل مکر جاؤں گی۔ آ گے تمہاری قسمت۔
میں اماں کے سونے کے انتظار میں خود کئی دفعہ گاؤں کے اوپر چھائی چاندنی کی چادر میں سو گیا۔ آ خر کار اماں کے خراٹے آنا شروع ہوئے تو میں چپکے سے اٹھا اور بلی کی طرح پاؤں پر پاؤں رکھتا حویلی سے نکل گیا۔
مجھے آج تک یاد ہے کہ اس وقت گاؤں کے سب دوستوں نے مجھے دیکھ کر میری بہادری پر نعرے لگائے کیونکہ ان سب کو علم تھا کہ میرے اوپر اماں نے مارشل لاء لگایا ہوا ہے۔ اس وقت سلطان راہی کی فلم زنجیر چل رہی تھی اور موصوف ہاتھ میں زنجیر لے کر پھر رہے تھے۔ میں نے ٹوٹی کو دس روپے پکڑائے جس کا مطلب تھا کہ میں دو فلمیں دیکھ سکتا تھا۔ ابھی میں مجمع میں بیٹھا ہی تھا کہ کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ میری جان نکل گئی کیونکہ مجھے خطرہ تھا کہ ہو نہ ہو کوئی میرے گھر سے ہی آیا ہوگا ۔ میں نے بڑی مشکلوں سے مڑ کر دیکھا تو میری جان نکل گئی کہ میرا وہی بڑا بھائی آنکھیں نیند سے ملتا کھڑا تھا جس کو سب کچھ کھل کر کرنے کی اجازت تھی۔ کہنے لگا روفی صاحب گھر جائیں۔ آپ کو اماں بلا رہی ہیں۔ میری جان نکل گئی۔ کاٹو تولہو نہیں۔ میں اٹھ کر جانے لگا تو وہ بھائی بولا کہ روفی صاحب اب جب کہ میں نیند سے اٹھ گیا ہوں تو میرا خیال ہے کہ فلمیں دیکھ ہی لوں۔ وہ طنزیہ بولا میں نے بہن سے پیسے مانگے تھے اس نے مجھے تو نہیں دیے، اس لیے میں سو گیا تھا لیکن اس نے تمہیں دے دیے۔ اب ایک کام کرو، جاتے ہوئے ٹوٹی کو بتا جاؤ کہ تہماری جگہ اب میں بیٹھ کر فلمیں دیکھوں گا۔
میں نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا خدا یہ کیسا انصاف ہے کہ بڑے بھائی کو اجازت ہے جو بالکل نہیں پڑھتا اور جو میں روزانہ سکول جاتا ہوں اور کوئی سگریٹ نہیں پیتا پھر میرے اوپر یہ سختیاں کیوں۔ گھر گیا تو اماں بہن کی زبانی پھینٹی لگا چکی تھیں کہ اسے کیوں پیسے دیے تھے اور وہ پانچ بھائیوں کی اکلوتی بہن ہونے کے باوجود اپنے چھوٹے بھایؤں کو خراب کر رہی تھی۔ مجھے کچھ کہنے کی بجائے میرے ایک اور بڑے بھائی سیلم جو بنک میں جاب کرتے تھے، پر چڑھائی کر رہی تھیں کہ تم سوئے رہتے ہو اور چھوٹے بھائی خراب ہو رہے ہیں۔ بھائی اپنی نیند خراب ہونے کی وجہ سے بے مزہ تھے اور اوپر سے اماں کی باتوں نے انہیں اور گرما دیا تھا۔ انہوں نے غصے سے مجھے اپنے بستر کے قریب بلایا اور وہیں سے بغیر بولے مجھے زور سے ٹانگ ماری۔ میرے لیے اس سے بڑی بے عزتی کا کوئی مقام نہیں تھا کیونکہ پہلی دفعہ کسی بھائی نے میری” شان” میں گستاخی کی تھی۔ میں روتا ہوا اپنی چارپائی پر جا کر لیٹ گیا اور اگلے دو دن تک بڑے بھائی سلیم سے کوئی بات نہیں کی۔ انہوں نے اگلے دن مجھے منانے کی کوشش کی لیکن میں نہ مانا اور منہ پھلائے رکھا۔ تیسر ے دن وہ وی سی آر خود خرید کر لائے اور مجھے گلے سے لگا کر پیار کیا اور کہا کہ اب تم گھر پر فلمیں دیکھا کرو لیکن ویک اینڈ پر۔ مجھے اپنے چہرے پر پھیلی اس خوشی جیسی خوشی بھی کم زندگی میں ملی ہو گی۔
آج برسوں بعد اتوار کے روز اسلام آباد کی اس شام میں، میں نے اپنے قریب لیٹے چھوٹے بیٹے کو دیکھا تو حیران ہوا کہ کچھ برسوں میں دنیا کتنی بدل گئی تھی۔ وہ اس وقت ڈش ٹی وی پر کنگ کانگ دیکھ رہا تھا اور میں اتنی جرات نہیں کر پا رہا تھا کہ اس کی مرضی کے خلاف چینل بدل کر کوئی اپنی مرضی کی فلم دیکھ سکوں۔ اس نے کہا بابا جب تک یہ کنگ کانگ ختم نہیں ہو گئی آپ ریمورٹ کو ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ مجھے اس کا حکم سن کر گاؤں کی وہ رات یاد آگئی۔ اس وقت اماں کے ہاتھوں مجبور ہو کر فلم نہیں دیکھ پایا تھا تو آج میرے ہی بیٹے نے وہ رول سنبھال لیا تھا ۔ میں اتنا بے بس کیوں تھا یا پھر شاید محبتیں بے بس کر دیتی ہیں۔
میں مجبور ہو کر اس کے ساتھ لیٹ گیا تاکہ یہ فلم ختم ہو تو میں کچھ اور دیکھوں۔ اس وقت ہی میری توجہ اس فلم کے اس آخری سین نے اپنی طرف کھنیچ لی جب کنگ کانگ کو مارنے کے لیے جنگی طیارے حملہ آور ہو رہے تھے۔ بہت کم فلیمں ایسی ہوتی ہوں گی جو آپ نے شروع سے نہ دیکھی ہو لیکن ان کا چند منٹ کا آخری سین آپ کو اتنا مجبور کر دے کہ آپ اس سین کی خوبصورتی تو ایک طرف، اس ایک ڈایئلاگ کے رومانس سے باہر نہ نکل سکیں کہ یہ کنگ کانگ جہازوں کی گولیوں سے نہیں مرا ، بلکہ اسے ایک عورت کی خوبصورتی نے مروایا ہے ۔ کیا آپ کو بھی میری طرح نہیں لگتا کہ اس ایک چھوٹے سے فقرے میں خدا کی خوبصورت تخلیق جس کا نام عورت ہے، سے صدیوں پر پھیلی محبت کی لازوال کہانی چھپی ہے، جس کے جنوں میں سب نے اپنے اپنے لہو کی قربانی دی ہے، چاہے وہ مصر کی ملکہ قلوپطرہ کے عشق میں مبتلا قدیم یونان کے گریٹ سیزر کا جنرل مارک انتھونی ہو یا پھر کسی ایک عام فلم کا کنگ کانگ !

Views All Time
Views All Time
267
Views Today
Views Today
1

حالیہ پوسٹس